اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'کسی ایک کو بدنام کرنے سے گریز کریں'

سوسائٹی فار پالیسی سٹیڈیز کے ڈائریکٹر سی ادئے بھاسکر نے کورونا وائرس وبا کے دوران میڈیا کے ایک طبقے کی جانب سے مسلم مخالف فرقہ واریت پھیلانے کے تناظر میں کہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوات کی بات پر بھارت کو عمل کرنے کی ضرورت ہے، جس میں انہوں نے کووِڈ 19 کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اتحاد اور بھائی چارہ کو وقت کی اہم ضرورت بتایا تھا۔بھاسکر نے مزید کہا کہ ابھی اس موضوع پر قابو نہیں پایا گیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کی وجہ سے بھارت کی سلامتی اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کی خوشحالی کو نقصان پہنچے گا۔

کسی ایک کو بدنام کرنے سے گریز کریں، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا دانشمندانہ مشورہ
کسی ایک کو بدنام کرنے سے گریز کریں، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا دانشمندانہ مشورہ

By

Published : May 2, 2020, 5:09 PM IST

بھارت نے کووڈ 19 سے متعلق جاری لاک ڈاون میں مزید چودہ دن کی توسیع کی ہے۔ اب یہ لاک ڈاون وسط مئی تک جاری رہے گا اور اس کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ وائرس پر کس حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کی جانب سے لاک ڈاون پر مکمل عمل درآمد اور لوگوں کی قوت مدافعت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے صورت حال میں بہتری ہوگی۔ اس کے بعد لاک ڈاون میں نرمی پیدا کی جاسکے گی۔

لیکن اس دوران بھارت کی سیاست میں ایک اور مہلک وائرس پھیل رہا ہے۔ یہ مسلم مخالف فرقہ واریت کا وائرس ہے۔ اگر یہ وائرس قابو نہیں کیا گیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کی وجہ سے بھارت کی سلامتی اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کی خوشحالی کو نقصان پہنچے گا۔ملک میں مسلم مخالف جذبات کا پھیلاؤ وسط اپریل میں شروع ہوگیا تھا، جب تبلیغی جماعت نے نئی دلی کے نظام الدین میں کووِڈ19 کے لئے احتیاطی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اجتماع منعقد کیا تھا۔

تبلیغی جماعت کی اس لاپرواہی کی وجہ سے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے شواہد ملے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔ تاہم اس معاملے کو میڈیا کے ایک طبقے نے غلط انداز میں پھیلایا اور یہ تاثر پیدا کیا کہ بھارت کے خلاف کورونا ’جہاد‘ شروع کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو دھمکانے اور انہیں اذیتیں دینے کے کئی واقعات رونما ہوئے۔ اس ضمن میں خاص طور سے چھاپڑی فروشوں اور سبزی فروخت کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بعض معاملات میں منتخب نمائندگان (ممبران اسمبلی) کو بھی مسلم مخالف جذبات کو ابھارنے کی کوشش کرنے میں ملوث پایا گیا۔

جب ملک میں فرقہ وارانہ جانبداری کا یہ رجحان پھیل رہا تھا تب وزیر اعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے مطلوبہ اصلاحی اقدام کیا۔ اتوار (26 اپریل) کو بھاگوت نے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم کو کووِڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کا چیلنج درپیش ہے، چند افراد کی قانون شکنی کی وجہ سے ہمیں کسی پورے فرقے کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بھاگوت نے کہا، ’’اگر کسی ایک نے غصے یا خوف کی وجہ سے کوئی غلطی کی ہے تو ہم اس کے لئے پورے فرقے کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے اور نہ ہی اس وجہ سے کسی فرقے کو الگ تھلگ کرسکتے ہیں۔‘‘

اس سے ایک ہفتہ قبل (19 اپریل کو) وزیر اعظم مودی نے بھی اس معاملے میں سامنے آکر مشتعل شہریوں کو اتحاد اور بھائی چارہ قائم رکھنے کی تلقین کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کووِڈ 19 کے چیلنج سے نمٹنے کے دوران اتحاد اور بھائی چارہ بنائے رکھنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا،’’ کووِڈ 19 پھیلنے سے پہلے کسی کی نسل، مذہب، رنگ، ذات،اور زبان یا سرحدیں نہیں دیکھتا ہے۔ ہمیں اتحاد اور بھائی چارہ اپنانا چاہیے۔ ہم اس معاملے میں یک جٹ ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کا ’’بہتر مستقبل یکجہتی اور نرم روی میں مضمر ہے۔‘‘

تاہم دونوں مودی اور بھاگوت کی ان نصحیتوں کا بی جے پی اراکین پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ یو پی کے دو راکین اسمبلی کو لوگوں سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا کہ مسلم سبزی فروشوں سے سبزیاں نہ خریدی جائیں اور بستیوں میں ان مسلم سبزی فروشوں کا داخلہ روک دیا جائے۔ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ان سبزی فروشوں کی وجہ سے وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے۔ یہ بات بی جے پی کے حق میں جاتی ہے کہ اس نے ان دونوں ممبران اسمبلی کے نام وجہ بتائو نوٹس جاری کردیا۔ بی جے پی کے صدر جے پی نندا نے اپنی پارٹی کی مقامی لیڈرشپ کو طلب کرکے اسے اس طرح کا فرقہ وارنہ لب و لہجہ نہ اپنانے کی تلقین کی ہے۔

ان ناگوار واقعات کی وجہ سے بھارت کی امیج کو بیرونی دُنیا میں بھی دھچکہ لگا ہے۔ مذہب سے جڑا کوئی بھی واقعہ جانبدارانہ رائے پیدا کردیتا ہے۔ بھارت میں کووِڈ 19 سے متعلق مسلم مخالف واقعات سے متعلق رپورٹنگ بیرونی دنیا میں بھی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والے الزامات کو دیکھ کر متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہینڈ القاسمی نے ایک غیر معمولی بیان جاری کردیا۔ انہوں نے امارات میں ایک بھارتی شہری کی جانب سے ایک مسلم مخالف سوشل میڈیا پوسٹ پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ مہاتما گاندھی کی سرزمین پر یہ کس طرح کی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ اپنے پریشان کن بیان میں اُنہوں نے پوچھا، ’’بھارت کو کیا ہوا ہے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ ہندو ازم ایک پر امن مذہب ہے۔ شاید یہ اسلام اور عیسائت سے بھی زیادہ پر امن مذہب ہے۔‘‘

ایک اور غیر معمولی واقعہ میں امریکی پینل ( یونائٹیڈ کمیشن آن انٹرنیشنل ریلی جیس فری ڈم) نے بھی بھارت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ اس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ سال 2019 یعنی جب سے بی جے پی دوبارہ منتخب ہوکر آگئ ہے، اقلیتیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جارہا ہے۔ یونائٹیڈ کمیشن آن انٹرنیشنل ریلی جیس فری ڈم دو پارٹیوں پر مشتمل امریکی وفاق کا ایک خود مختار ادارہ ہے۔ بھارت نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے جانبدارانہ اور غلط بیانی پر مبنی قرار دیا ہے۔

بیرونی دُنیا میں بھارت کی امیج کو ملک میں پائے جانے والے حقائق سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ مودی اور بھاگوت دونوں نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کو ایک ایسے وقت پر جب ملک کو خوفناک وبا سے جوجھ رہا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں تیس لاکھ لوگوں کو متاثر کیا ہے اور دو لاکھ چالیس ہزار کو ہلاک کردیا ہے، مودی اور بھاگوت نے کہا ہے کہ بھارت کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے حقیقی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے اراکین کو سختی سے اس کا پابند بنایا جانا چاہیے کہ وہ کووِڈ وائرس اور سماجی معاملات کے حوالےسے ان باتوں پر عمل کریں ، جن کی تلقین ان پارٹیوں کے لیڈران کھلے عام کررہے ہیں۔

سی اُدئے بھاسکر

(ڈائریکٹر، سوسائٹی فار پالیسی سٹیڈیز)

ABOUT THE AUTHOR

...view details