گذشتہ برس جولائی میں پیش کیے گئے اپنے پہلے بجٹ میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے مالی برس 20-2019 کے مالی خسارے کو ملک کی جی ڈی پی کا 3.3 فیصد یا 7 لاکھ کروڑ روپے سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔
دراصل 2003 میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے مرکز اور ریاستوں دونوں میں مالی نظم و ضبط پیدا کرنے کے لئے معاشی ذمہ داری اور بجٹ مینجمنٹ ایکٹ (ایف آر بی ایم ایکٹ) نافذ کیا تھا۔
تاہم ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ایف آر بی ایم ایکٹ کو گذشتہ برسوں سے کمزور کردیا گیاہے جس سے معیشت میں کمزوری پیدا ہوئی ہے۔ معاشی بحالی کے لئے مودی حکومت کو اصل ایف آر بی ایم ایکٹ نافذ کرنا چاہئے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائنانس اینڈ پالیسی (این آئی پی ایف پی) کے پروفیسر این آر بھانومورتی نے کہا کہ 'فلسفے کے مطابق، ایف آر بی ایم ایکٹ اخراجات کو تبدیل کرنے کا طریقہ کار ہے ، جس میں محصولات سے لے کر سرمایہ اخراجات تک کا خرچ آتا ہے اور یہ اخراجات کو دبانے والا میکانزم نہیں ہے۔'
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'اصل ایف آر بی ایم ایکٹ کے تحت مالی خسارہ کو جی ڈی پی کے 3 فیصد اور محصولات کے خسارے کو صفر فیصد تک لایا جانا لازمی ہے۔ اس ایڈجسٹمنٹ میں جو ہوتا ہے وہ یہ کہ سرمایہ اخراجات میں وقتا فوقتا اضافہ ہوتا ہے اور کھپت کے اخراجات میں کمی آتی ہے۔'
محصول کے اخراجات کے برعکس، جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ حکومت کے آپریشنل اخراجات جیسے 'ویجیز اور پنشن بل'، سبسڈی اور سود کی ادائیگی اور دیگر 'نان پروڈکٹیو' اخراجات، سرمایہ کے اخراجات سڑکوں، بندرگاہوں، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر میں جاتے ہیں۔