سنہ 1948 کی جنوری میں دہلی کڑاکے کی سردی کی زد میں تھا، بابائے قوم مہاتما گاندھی یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی سے ہوئے نقصانات کا جائزہ لینے پہنچے تھے، اس وقت ان کی عمر 79 برس تھی، وہ صبح آٹھ بجے بختیار کاکی کی درگاہ حاضر ہوتے ہیں، ان کے چہرے کی رمق ماند پڑ چکی تھی، بقول گاندھی جی 'جس طرح سے مسلمانوں کو ان کی ہی زمین پر مذہبی منافرت کا شکار ہونا پڑا، ان کا دل افسردہ ہو گیا اور پریشانی ان کے چہرے پر عیاں تھی اور وہ اس واقعہ سے کرب و اضطراب میں مبتلا ہو گئے، اس وقت ان کے ساتھ مولانا آزاد اور راج کماری امرت کور بھی تھیں۔
چونکہ باپو کچھ وقت پہلے ہی روزے پر تھے، لہذا وہ کافی کمزور بھی ہوگئے تھے۔ عالم یہ تھا کہ مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔ فسادات کے دوران اس مقدس مقام پر حملہ کیا گیا بلکہ بربریت بھی کی گئی، جس کی وجہ سے بہت سارے مقامی مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور محفوظ مقامات پر پناہ لینی پڑی یہاں تک کہ درگاہ کے ملازمین نے بھی جان جانے کے خوف سے اس جگہ کو چھوڑ دیا اور وہ بھی محفوظ مقامات پر چلے گئے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب پورا مہرولی علاقہ دیہاتوں سے گھرا ہوا تھا، گرین پارک، حوض خاص، صفدر جنگ ڈیولپمنٹ ایریا، آئی آئی ٹی اور جنوبی دہلی کی مختلف کالونیاں 50 کی دہائی کے وسط میں ہی وجود میں آئی تھیں۔
باپو کے ذاتی معاون رہے پیارے لال نائر اپنی کتاب 'مہاتما گاندھی پورن ہوتی' میں لکھتے ہیں 'درگاہ کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا دیکھ باپو پوری طرح ٹوٹ گئے تھے، انہیں حکومت کی طرف سے قطب الدین بختیار کاکی درگاہ کے قریب بسایا گیا تھا'۔
اس دوران باپو نے درگاہ میں موجود سبھی افراد سے پر امن طریقے سے رہنے کی اپیل کی، انہوں نے مہاجرین سے تباہ شدہ جگہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کو کہا، اور پھر باپو نے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے درگاہ کی مرمت کروانے کو کہا، کیونکہ فسادات کے دوران یہاں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا۔