اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

آر سی ای پی: بھارت کے تجارتی معاہدوں کے مثبت و منفی پہلوؤں پر جامع رپورٹ

وزیراعظم نریندر مودی تیسری سمٹ کے علاقائی جامع اقتصادی شراکت (آر سی ای پی) کے لئے تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں ہیں۔ وہاں پر آر سی ای پی معاہدے کے لئے جاری مذاکرات کے پیش نظر، بھارت کے لئے تجارتی معاہدے کے کچھ ممکنہ مثبت اور منفی پہلوؤں پر ایک نظر ڈالتے ہے۔

By

Published : Nov 4, 2019, 2:23 PM IST

آر سی ای پی: بھارت کے تجارتی معاہدوں کے پیشہ اور موافق


پہلے نقصانات پر بات کرتے ہے۔

⦁ ایف ٹی اے کے کام کرنے کے بعد بھارت کا تجارتی پارٹنر کے ساتھ تجارتی توازن خراب ہوجاتا ہے۔

اقتصادی سروے 2017-18 نے بھارت کے دستخط کیے گئے ایف ٹی اے معاہدے کے اثرات کا مطالعہ کیا تھا۔ سروے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایف ٹی اے کا اوسط اثر تقریبا چار برسوں میں مجموعی تجارت میں 50 فیصد اضافہ کرنا ہے لیکن عام طور پر بھارت میں تجارت کے توازن کا معیار خراب ہوجاتاہے۔ دوسرے الفاظ میں کہے تو تجارتی خسارہ بڑھتا ہے یا تو سرپلس
کم ہوتا ہے۔

آر سی ای پی: بھارت کے تجارتی معاہدوں کے پیشہ اور موافق

آسیان بھارت کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ سی ای سی اے نے آسیان کے ساتھ یکم جنوری 2010 کو تجارت شروع کی تھی۔ بھارت - آسیان ایف ٹی اے کے معاملے میں 21 میں سے 13 شعبوں میں تجارتی توازن خراب ہوا ہے۔جن شعبوں میں نقصان ہوا ان میں ٹیکسٹائل، کیمیکلز، سبزیوں کی مصنوعات، دھاتیں، جواہرات اور زیورات شامل ہیں۔

بھارت کے تجارتی توازن پر بیشتر دوسرے ترجیحی تجارت کے معاہدوں کا اثر مختلف نہیں ہے۔بھارت-کوریا سی ای پی اے بھی یکم جنوری 2010 سے موثر انداز میں چلنے لگا۔ اس وقت سے دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تجارت 12 ارب ڈالر سے بڑھ کر 21.5 بلین ڈالر ہوگئی ہے۔

لیکن ایک بار پھر برآمدات کے مقابلے میں درآمدات بہت تیزی سے بڑھ گئیں۔ اس کے نتیجے میں کوریا کے ساتھ بھارت کا تجارتی خسارہ تقریباً تین گنا ہوگیا ہے، جو 2009-10 میں 5 بلین ڈالر سے بڑھ کر2018-19 12 بلین تک پہنچ گیا ہے۔

آر سی ای پی: بھارت کے تجارتی معاہدوں کے پیشہ اور موافق

بھارت-جاپان سی ای پی اے یکم اگست 2011 سے کام کرنے لگا۔ جس کے بعد بھارت کا تجارتی خسارہ بھارت کے تجارتی خسارے سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ گیا ہے جو کہ دنیا کے باقی ممالک سے زیادہ ہیں۔

⦁ موجودہ ایف ٹی اے کا کم استعمال

بھارت کا تجارتی توازن اپنے ایف ٹی اے شراکت داروں کے ساتھ خراب ہے کیونکہ بھارت برآمد کنندگان ترجیحی راستوں سے اتنا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہیں جتنا کہ تجارتی شراکت داروں کے برآمد کنندگان کرتے ہیں۔

درحقیقت ایف ٹی اے کے ذریعہ بھارت کی بین الاقوامی تجارت کی فیصد بہت کم ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق ایف ٹی اے کے استعمال کی شرح 25 فیصد سے بھی کم ہے جو ایشیاء میں سب سے کم ہے۔

موجودہ ایف ٹی اے کے اس کم فائدہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا برآمدات کا شعبہ کم صلاحیت کے ساتھ بٹ گیا ہے ۔ بھارت کے برآمد کنندگان عام راستہ کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔

⦁ گھریلو رکاوٹیں

بھارت کے برآمد کنندگان کو لین دین کے اعلی اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں کم کم قابلہ والا ملک بنتا ہیں۔نتی آیوگ کے تجزیہ کے مطابق بھارت میں لاجسٹک لاگت ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتی ہے۔بھارت میں لاجسٹک کی اوسط لاگت جی ڈی پی کا 15 فیصد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے لاگت 8 فیصد کے قریب ہیں۔

⦁ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ

ابھی کچھ ہفتوں پہلے ہی بھارت نے اگربتی جیسی چیزوں پر درآمدی محصولات بڑھا دیئے تھے ۔ ویتنام اور چین کی صنعت کار بھارت کے مقابلے میں زیادہ مسابقت پیدا کرنے کے قابل ہیں۔لیکن آر سی ای پی میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے بھارت کو آسیان، جاپان اور جنوبی کوریا سے تقریباً 90 فیصد پر اشیاء ور چین، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے 74 فیصد زائد اشیاء پر محصولات کو ختم کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔

آئرن اور اسٹیل، دودھ، سمندری مصنوعات، الیکٹرانک مصنوعات، کیمیکلز اور دواسازی اور ٹیکسٹائل سمیت متعدد صنعتوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آر سی ای پی کے تحت تجویز کردہ محصولات کو ختم کرنے سے انھیں غیر مقابلہ بنایا جائے گا۔


اب بات کرتے ہیں فائدے کی۔

مذکورہ بالا تمام وجوہات کی بناء پر نیتی آیوگ نے مشورہ دیا ہے کہ آ سی ای پی پر حتمی مطالبہ کرتے ہوئے نہ صرف بھارت کو احتیاط سے اپنے مفادات اور تقابلی فوائد کا تحفظ کرنا چاہئے بلکہ کوریا اور جاپان کے ساتھ بھارت-آسیان ایف ٹی اے اور سی ای پی اے کی نامناسب دفعات کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔

تاہم ایسے بھی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بھارت پر لازمی ہے کہ وہ ایف ٹی اے پر دستخط کرے۔

⦁ صفر ٹیرف کے مقابلہ میں اعلی ٹیرف کی شرح

بھارت اپنی ملبوسات کی برآمدات کے لئے کلیدی منڈیوں میں شامل نہیں ہوا ہے جیسے کہ یورپی یونین ، امریکہ اور متحدہ عرب امارات ایف ٹی اے میں شامل ہیں۔اس سے بھارت کو ایک نامساعد حالات کا سامنا ہے۔اس کے نتیجے میں بھارت کی ملبوسات کی برآمدات میں روک لگ گئی ہیں۔


⦁ عالمی سطح پر پاپولزم کا عروج

تحفظ پسند اقدامات کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نہ صرف امریکہ بلکہ یورپ میں بھی اعلی ٹریف کا خطرہ بھارت کی برآمدات کے مسابقتی رجحان کو مزید خراب کرسکتا ہے۔ بھارت کے حریف جن کے پاس ترجیحی تجارت کے معاہدے ہوتے ہیں وہ ان انتظامات کے تحت ٹریف میں اضافے یا تجارت میں رکاوٹوں کے خلاف معاوضے کا دعوی کرسکتے ہیں۔ لیکن ایف ٹی اے کے بغیر بھارت ایسا نہیں کر سکے گا۔

⦁ مزدوری کی نقل و حرکت

بھارت کا تقابلی فائدہ اس کے ہنر مند مزدوری ہے۔ آر سی ای پی معاہدہ بھارت کے نقطہ نظر سے ایک جیت ہوگی اگر دوسری معیشتیں مزدوروں کی نقل و حرکت میں آسانی پیدا کرنے کے شعبے سمیت خدمات اور تجارت کے لیے آسان کام اور ویزا کی تعداد میں پہلے سے ہی اضافہ ہے۔

تارکین وطن کے خلاف مزاحمت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھارت جیسے آبادی والی معیشتوں کے لئے مزدوروں کی نقل و حرکت کی اہمیت کو بڑھایا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details