پہلے نقصانات پر بات کرتے ہے۔
⦁ ایف ٹی اے کے کام کرنے کے بعد بھارت کا تجارتی پارٹنر کے ساتھ تجارتی توازن خراب ہوجاتا ہے۔
اقتصادی سروے 2017-18 نے بھارت کے دستخط کیے گئے ایف ٹی اے معاہدے کے اثرات کا مطالعہ کیا تھا۔ سروے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایف ٹی اے کا اوسط اثر تقریبا چار برسوں میں مجموعی تجارت میں 50 فیصد اضافہ کرنا ہے لیکن عام طور پر بھارت میں تجارت کے توازن کا معیار خراب ہوجاتاہے۔ دوسرے الفاظ میں کہے تو تجارتی خسارہ بڑھتا ہے یا تو سرپلس
کم ہوتا ہے۔
آسیان بھارت کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ سی ای سی اے نے آسیان کے ساتھ یکم جنوری 2010 کو تجارت شروع کی تھی۔ بھارت - آسیان ایف ٹی اے کے معاملے میں 21 میں سے 13 شعبوں میں تجارتی توازن خراب ہوا ہے۔جن شعبوں میں نقصان ہوا ان میں ٹیکسٹائل، کیمیکلز، سبزیوں کی مصنوعات، دھاتیں، جواہرات اور زیورات شامل ہیں۔
بھارت کے تجارتی توازن پر بیشتر دوسرے ترجیحی تجارت کے معاہدوں کا اثر مختلف نہیں ہے۔بھارت-کوریا سی ای پی اے بھی یکم جنوری 2010 سے موثر انداز میں چلنے لگا۔ اس وقت سے دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ تجارت 12 ارب ڈالر سے بڑھ کر 21.5 بلین ڈالر ہوگئی ہے۔
لیکن ایک بار پھر برآمدات کے مقابلے میں درآمدات بہت تیزی سے بڑھ گئیں۔ اس کے نتیجے میں کوریا کے ساتھ بھارت کا تجارتی خسارہ تقریباً تین گنا ہوگیا ہے، جو 2009-10 میں 5 بلین ڈالر سے بڑھ کر2018-19 12 بلین تک پہنچ گیا ہے۔
بھارت-جاپان سی ای پی اے یکم اگست 2011 سے کام کرنے لگا۔ جس کے بعد بھارت کا تجارتی خسارہ بھارت کے تجارتی خسارے سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ گیا ہے جو کہ دنیا کے باقی ممالک سے زیادہ ہیں۔
⦁ موجودہ ایف ٹی اے کا کم استعمال
بھارت کا تجارتی توازن اپنے ایف ٹی اے شراکت داروں کے ساتھ خراب ہے کیونکہ بھارت برآمد کنندگان ترجیحی راستوں سے اتنا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہیں جتنا کہ تجارتی شراکت داروں کے برآمد کنندگان کرتے ہیں۔
درحقیقت ایف ٹی اے کے ذریعہ بھارت کی بین الاقوامی تجارت کی فیصد بہت کم ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق ایف ٹی اے کے استعمال کی شرح 25 فیصد سے بھی کم ہے جو ایشیاء میں سب سے کم ہے۔
موجودہ ایف ٹی اے کے اس کم فائدہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا برآمدات کا شعبہ کم صلاحیت کے ساتھ بٹ گیا ہے ۔ بھارت کے برآمد کنندگان عام راستہ کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔
⦁ گھریلو رکاوٹیں
بھارت کے برآمد کنندگان کو لین دین کے اعلی اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی منڈی میں کم کم قابلہ والا ملک بنتا ہیں۔نتی آیوگ کے تجزیہ کے مطابق بھارت میں لاجسٹک لاگت ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتی ہے۔بھارت میں لاجسٹک کی اوسط لاگت جی ڈی پی کا 15 فیصد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے لاگت 8 فیصد کے قریب ہیں۔