اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

رین واٹر ہارویسٹنگ اور اٹل بھُو جَل یوجنا - ملک کی آزادی کے بعد سے زمینی پانی کی فی کس پانی کی دستیابی

بارش کے پانی کو جمع کرکے دوبارہ قابل استعمال بنانے (رین واٹر ہارویسٹنگ) کے لیے کوشش سے متعلق عالمی سطح پر بھارت انتہائی نچلی سطح پر رہا ہے۔ اب تک بھارت میں زمینی پانی کا صرف 8 فیصد ذخیرہ محفوط کیا جا سکا ہے۔ دوسری طرف زیرزمین پانی بغیر کسی صاف صفائی کے استعمال ہورہا ہے۔ بھارت میں زیرزمین پانی کے قریب قریب تمام ذخائر ختم ہوتے جارہے ہیں۔

Rainwater Harvesting and Atal Bhujal Yojna in urdu
رین واٹر ہارویسٹنگ اور اٹل بھوجل یوجنا

By

Published : Jan 3, 2020, 10:22 AM IST

چھ ہفتے پہلے مرکزی حکومت نے پانی کے قدرتی ذخائر کو بچانے کی ایک انوکھی اسکیم شروع کی ہے۔ جس میں 'جل شکتی ابھیان' مہم شامل ہے۔

یہ اسکیم 256 اضلاع اور 1592 بلاکز میں متعلقہ ریاستی حکومتوں کے تعاون کے مطابق تیار کی گئی ہے۔ حکومت نے ایک ہی وقت میں تمام علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔

مودی سرکار نے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے یوم پیدائش کے موقع پر ان کے اعزاز میں سات ریاستوں میں ایک نئی 'اٹل بھُو جل یوجنا' شروع کی ہے۔ جس نے جل شکتی ابھیان کے تحت مقامی تنظیموں کے لئے رہنما خطوط وضع کیے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت مہاراشٹر، ہریانہ، راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور کرناٹک کے 78 اضلاع شامل ہیں۔ جن میں تقریباً 8،300 ذیلی بلاکز کو فائدہ ہو گا۔ یہ اسکیم 6000 کروڑ روپئے کے لاگت سے بنائی گئی ہے۔ اس کا مقصد زیر زمین پانی کو بہتر اور قابل استعمال بنانا ہے۔

رین واٹر ہارویسٹنگ پلانٹ

مزید پڑھیں : واٹر ہارویسٹنگ کی انوکھی پہل 'ہاف گلاس واٹر' مہم

اس اسکیم کے تحت اگلے پانچ برسوں تک دیہاتوں میں کام کیا جائے گا۔ جس کی آدھی رقم ورلڈ بینک سے لئے گئے قرض کی ادائیگی کے لیے جمع کی جائے گی ، جبکہ باقی رقم ریاستوں کو اس اسکیم کے تحت مرکزی امداد کی شکل میں دی جائے گی۔

جب کہ مرکز کا کہنا ہے کہ یہ فہرست متعلقہ ریاست کی دلچسپی اور تیاریوں کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے- ریاست پنجاب کی حکومت کے ردعمل سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ مرکز کے ذریعہ ڈیٹا اکٹھا کرنا مکمن نہیں۔ ریاست کے وزیراعلی کیپٹن امریندر سنگھ نے سوال کیا کہ پٹھان کوٹ اور مکتسر کے علاوہ باقی بیس اضلاع میں زیر زمین پانی ضائع کرنے والے پنجاب کو 'اٹل بھو جل یوجنا' میں کیوں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

زیر زمین پانی بھانپ کی شکل میں بادل بنتا اور بارش کی شکل میں زمین میں برستا ہے

ان اعتراضات کے بعد اگر اس سکیم میں مزید شعبوں کو شامل کرلیا گیا ہے، تو سب کے ساتھ مناسب انصاف کے بھروسے کو مضبوط کیا جائے گا۔ یہ اسکیم اس وقت تک قابل عمل نہیں ہوگی جب تک کہ لاگت کو مناسب طریقے سے نہ بڑھایا جائے۔

مزید پڑھیں: ای ٹی وی بھارت کی مہم کو واٹر مین کی حمایت حاصل

در حقیقت موجودہ منظر نامے میں وزیر اعظم مودی کا یہ دعوی کہ ہر گاؤں کو نہ صرف اپنے قدرتی اور زمینی پانی کے ذخائر کے تحفظ کے لئے کوشش کرنی چاہئے ، بلکہ ایسی فصلوں کی کاشت کے سلسلے میں آبی وسائل کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے، جو پورے ملک پر لاگو ہو۔

جل شکتی وزارت، حکومت ہند پانی کی سربراہی اور تحفظ کے لیے کام کرتا ہے

واٹر مین آف انڈیا کے نام سے معروف راجندرا سنگھ کا اندازہ ہے کہ ملک کے زمینی پانی کے ذخائر کا اب تک 72 فیصد ختم ہوچکا ہے۔ چار برس قبل ناسا (NASA) کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق بھارت کا زمینی پانی تقریبا کھو گیا ہے، جو سابق میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سب سے بڑے ذخائر 'میڈ جھیل' کی مقداد سے دگنا تھا۔ زمینی پانی کے ذخیروں کا غیر ذمہ دارانہ ضائع کرنا بھی آخری درجے کی حد تک کا نقصان ہے! !

پانی کو ضائع نہ کریں

ملک کی آزادی کے بعد سے زمینی پانی کی فی کس پانی کی دستیابی 6،042 مکعب میٹر (cubic meters)ہے۔ آج یہ دستیابی کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے اور مزید گراوٹ کے راستے پر ہے۔ اس سب کے باوجود زمینی پانی کے بحران کا مسئلہ سے اب بھی عوام کی اکثریت ناواقف ہے اور یہ ایک عوامی راز بن گیا ہے! اس کے باوجود کوئی بھی حل پر توجہ دینے کی پرواہ نہیں کرتا ہے! ملک میں آلودگی پر قابو پانے کا نظام کئی دہائیاں پہلے بنا، لیکن پانی کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی بھی کامیاب کوشش نہیں ہوپائی۔

کنٹرولر آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ 'زمینی پانی کے نقصان اور بحالی کی روک تھام کے لئے کافی مقدار کوشش نہیں کی گئی' اس کے باوجود بھی سنجیدگی کہیں نظر نہیں آتی۔ اس سے قدرتی وسائل کے تحفظ میں کوئی مدد نہیں ملی۔ اس کے نتیجے میں زیرزمین پانی پر دباؤ تیز ہوگیا ہے اور 160 اضلاع میں ذخائر نمکین ہوچکے ہیں اور 230 اضلاع فلورائڈ مرض سے متاثر ہوئے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ریاستی سطح پر پانی کے حفاظت کے لیے شعوری طور پر مختلف اسکیموں کے ناموں سے کاوشیں کی جاتی ہیں جیسے - 'مشن کاکتیہ' (تلنگانہ)، 'نیرو-چیٹو'(اے پی)، 'وزیر اعلی جل سو ابھیمان ابھیان' ( راجستھان) اور 'سوزالہ سفلم یوجنا' (گجرات) ۔ اس کے باوجود قومی سطح پر مربوط کوششوں کا فقدان ایک بڑی خرابی ہے۔ لہذا ، برابری کی شراکت میں صرف مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی مشترکہ کاوش ملک کے زیرزمین پانی کے ذخائر کو بچانے کے لئے ایک نئی راہ ثابت ہوسکتی ہے۔

پانی کے ایک ایک قطرے میں انسانیت کا مستقبل محفوط ہے، لہذا اس کی حفاظت کریں


معیاری پانی کے ذخائر اور شہریوں کو فراہمی ملک گیر سطح پر کوئی آسان چیز نہیں ہے۔ آبپاشی کے پانی کی طلب اور اس کی دستیابی کے مابین فرق کے بارے میں مرکز کے تجزیہ میں ٪ 43 فیصد تک اضافے کی توقع کی جا رہی ہے، جس کا ثبوت 'جل جیون مشن' ہے۔

جل جیون مشن میں پانچ برسوں میں 14 کروڑ دیہی گھرانوں کو پانی کی لاگت کا تخمینہ تین لاکھ 60 کروڑ روپیے ہے۔ موجودہ منظرنامے کے پیش نظر اسی مقصد کو حاصل کرنا قطعی طور پر غیر یقینی ہے، چاہے مرکز اور ریاستیں بھی برابر کے اخراجات بانٹ دیں! تقریبا ساڑھے تین برس پہلے مہر شاہ کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ عصری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سنٹرل واٹر باڈی اور سنٹرل گراؤنڈ واٹر سسٹم کو از سر نو تشکیل دیا جائے۔ وزیر اعظم مودی نے کوآپریٹو فصلوں کی کاشت کے لئے زمینی پانی کے استعمال سے متعلق تعاون اور پانی کے بجٹ تیار کرنے کے لیے ترغیب دی تھی۔

زمین پانی کے تحفظ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت نگرانی کرے اور متعلقہ کسانوں کو رہنمائی اور تکنیکی معلومات فراہم کرے۔ کیونکہ ان ہی کسانوں کے ذریعے پیداورا کو حاصل کرنا ہے۔

آسٹریلیا ، جنوبی افریقہ اور برطانیہ نے زمینی ذخائر کو مفید بنانے اور ان کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات شروع کیے ہیں۔ چین نے یہ یقینی بنایا ہے کہ لگ بھگ 12 ملین نگہداشت کرنے والوں پر نگرانی کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ قوم میں کوئی آبی ذخیرہ آلودہ نہ ہو۔

کچھ ممالک شاہراہوں اور سڑکوں کی تعمیر کے لئے مختلف جدید طریقوں پر بھی کام کر رہے ہیں، جس سے بارش کا پانی ضائع نہیں ہوتا ہے اور اس کا صحیح استعمال ہوتاہے۔

پانی کو محفوظ کیجیے ، زندگی محفوظ ہوجائے گی

مزید پڑھیں : ڈل جھیل میں موجود ہاؤس بوٹز سے متعلق رپورٹ طلب

قومی ثقافت و تہذیب کے فروغ کے ساتھ ساتھ پانی کے ہر قطرہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو تو فصلوں کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ قطرے قطرے سمندر وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح قوم کی سالانہ ضروریات کی تکمیل کے لیے پانی کی قلت کی پریشانی بھی ختم ہوجاتی ہے۔

پانچ ماہ قبل مرکزی حکومت کی گائیڈ لائنز جاری کی گئی تھی کہ بلدیات کو زیرزمین پانی کی کھدائی کی نگرانی کرنی چاہئے اور ان گڑھے کو دوبارہ بھرنا بھی چاہئے۔ اگر صرف ان ہدایات پر پوری طرح عمل کیا جائے تو اس میں کوئی سوال نہیں ہے کہ 'اٹل بھوجل یوجنا' کا مقصد پورے ملک حاصل ہوجائے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details