راہل گاندھی نے اس معاملے پر ایک ٹویٹ کیا، جس میں انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ 'چین کے ساتھ سرحدی صورتحال کے بارے میں حکومت کی خاموشی بحران کے وقت بھاری قیاس آرائیوں اور غیر یقینی صورتحال کو ہوا دے رہی ہے، بھارتی حکومت کو پاک صاف ہونا چاہیے اور بھارت کو بتانا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے'۔
ہم آپ کو بتادیں کہ پانچ مئی کو مشرقی لداخ کے پینگونگ جھیل علاقے میں بھارت اور چین کے 250 فوجیوں کے مابین لوہے کی سلاخوں اور لاٹھیوں سے جھڑپ ہوئی تھی، دونوں طرف سے پتھراؤ بھی ہوا تھا، اسی طرح کے ایک دیگر واقعے میں نو مئی کو سکم سیکٹر میں ناکو لا درے کے قریب دونوں ملکوں کے 150 فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔
پینگونگ تسو جھیل اور گلوان وادی میں ایل اے سی سے ملحقہ بہت سے علاقوں میں بھی دونوں اطراف سے فوجیوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔
گلوان کے آس پاس کے علاقے چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دونوں فریقوں کے مابین تنازع کا سبب بنے ہوئے ہیں، 1962 میں بھی اس علاقے کو لے کر ٹکراؤ ہوا تھا، ذرائع نے بتایا کہ چین نے وادی گلوان میں کم سے کم 40-50 خیمے لگائے ہیں، جس کے بعد بھارت نے اضافی فوج بھیج دی ہے، کشیدگی کی اس صورتحال کو بھی دنیا بھر کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازع پر ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی جو دونوں ممالک کے مابین "بڑے تصادم" کو لے کر 'اچھے موڈ میں نہیں ہیں'۔
حالانکہ بھارتی وزارت داخلہ نے صاف کر دیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین چار اپریل کے بعد کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے، دونوں رہنماؤں کے درمیان آخری مرتبہ چار اپریل کو ہائیڈروکسیکلوروکین کے عنوان پر بات ہوئی تھی۔