ایک شورش زدہ علاقے میں صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کیلئے ہمیشہ تیز دھار پر چلتے رہتے ہیں ۔رپورٹر اپنی رپورٹ مناسب حوالہ جات اور قابل اعتبار لوگوں کے بیانوں سے مکمل کرتے ہیں ، اسی طرح فوٹو جرنلسٹ اپنے کیمرہ کی آنکھ سے کہانی بتاتے ہیں ۔فوٹو جرنلسٹ کیلئے ایک اچھی کہانی کو سامنے لانے کیلئے صحافتی پختگی کے علاوہ ہمت درکار ہو تی ہے ۔
صحافیوں کواس ہمت اور جرأت کی کبھی کبھی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے، جیسے کہ کشمیر کے ایک فوٹو جرنلسٹ مشتاق علی جو اپنے دفتر میں ایک پارسل بم دھماکے میں ہلاک ہوئے کی وجہ سے بھاری قیمت چکانی پڑی ۔علی ممکنہ طور پر نشانہ اس نیوز پورٹ کیلئے بن گئے جو اس کے ساتھی اور صحافی یوسف جمیل نے لکھی تھی ۔یا پھر ہندوستان ٹائمز کا فو ٹو گرافر ‘ پردیپ بھاٹیہ ‘جو ایک رپورٹ کی گہرائیوں کو اپنے کمیرے میں بند کرنے کی سعی کے دوران سرینگر میں ہو ئے ایک کار بم دھماکے کی نذر ہو گیا ۔
جموں کشمیر میں ہمارے تین ساتھی صحافی مختار خان ،ڈار یاسین اور چھنی آنند نے گزشتہ سال 5 اگست جب جموں کشمیر کا خاص درجہ ختم کردیا گیا تھا، کے بعد کے حالات و واقعات کی کوریج کیلئے صحافتی دنیا کا اعلیٰ ترین ایوارڈ‘پلٹزر پرائز جیت گئے ۔یہ ایورڈ صرف کشمیر کی منظر کشی کیلئے نہیں ہے بلکہ ان حالات میں لی گئی یہ تصاویر کیلئے بھی دیا گیا ۔
ایک چھ سالہ لڑکی تصویر جس کی ایک آنکھ زخمی ہے، جس سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ بچے ایک سیاسی تنازعے والے علاقے میں محفوظ نہیں ہیں ۔ تصویر کے ذریعے اس بچی کے واقعہ سے یہ شورش زدہ علاقوں میں بچوں کے عدم تحفظ کی بات ایک بار پھر عیاں ہو جاتی ہے ۔
ایک اور تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرکاری فورسز اہلکار سرینگر میں طلباء کے ایک احتجاجی مظاہرے کے جواب میں پارک کی گئیں موٹر بائکوں پر نزلہ اتار رہے ہیں۔ ایک اور تصویر میں لوگ کشمیر کے کسی گاؤں میں سرکاری فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان ہو ئی مسلح جھڑپ کے دوران بارود سے زمین بوس کئے گئے ایک مکان کا ملبہ صاف کررہے ہیں ۔یہ ان تصاویر میں شامل ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے ان فوٹو جرنلسٹوں کو پلٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح لوگ موسم سرما میں زمین بوس مکان کا ملبہ صاف کررہے ہیں تاکہ عارضی طور پر رہائشی انتظام کیا جا سکے ۔اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ کس طرح لوگوں کو ان کی رہائش کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔