اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

جرائم کی روک تھام: قوانین کے نفاد کے ساتھ عملی اقدامات بھی ضروری - law for crime prevention

یہ کتنا خوبصورت خواب ہے کہ بے خوف سماج وجود میں آئے۔ جہاں نہ لوٹ مار ہو نہ ظلم، نہ زیادتیاں، نہ زنا بالجبر کا کوئی تصور اور نہ کسی کا قتل! لیکن بات یہ ہے کہ بھارت میں جرائم کی روک تھام کیسے ممکن ہو؟

practical steps are needed to enforce the law for crime prevention
جرائم کی روک تھام

By

Published : Sep 1, 2020, 10:54 AM IST

بھارت کی مختلف ریاستوں میں کہیں نہ کہیں جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

آئے دن خبریں آتی رہتی ہے کہ عوامی نمائندے جنسی زیادتی اور قتل جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ وہ غیر اخلاقی سیاست کی پیداوار ہیں۔ قتل اور متعدد صنفوں کے جرائم بھارت کو اس حد تک نیچے لے جا رہے ہیں کہ یہ ہر جگہ بدنامی کا سبب بن گیا ہے۔

بھارتی ثقافت میں اچھائی کو فروغ دینے کی بات کہی گئی ہے، لیکن قتل اور عصمت دری کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ یہاں خواتین عصمت دری، مظالم، ہراسانی، تشدد اور دیگر ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ کیونکہ انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں نظام قانون ناکام ہو رہا ہے جس سے معاشرہ بربادی کے دھانے پر ہے۔

حال یہ ہے کہ جب تک ایک متاثرہ لڑکی خود وزیرِ اعلیٰ کے گھر پر خود کشی کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہے اور انصاف کے لئے چیخ و پکار نہیں کرتی ہے تب تک کسی کے کان پر جوں تک نہیں رنگتی اور ریاست کے قانونی نظام سے کوئی ردِ عمل ہی نہیں آیا ہے جو سراسر غفلت اور غیر ذمہ داری کی واضح مثال ہے۔

جرائم کی روک تھام

اس کے باوجود نام نہاد حکام تب حرکت میں آئے جب سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے ڈیڑھ ماہ بعد معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا اور باالآخر اصل ملزم کو سزائے عمر قید سنائی گئی۔

اس معاملے سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی رہنما اور طاقت و قوت کے حامل افراد بھی 'سیاسی جرائم' میں ملوث ہوتے ہیں اور نظام قانون کو اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں یہاں تک کہ ایک لڑکی کو انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے تشدد اور جان کا خوف لاحق رہتا ہے۔

اُتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ سرکار نے حال ہی میں ایک ایسی سوسائٹی کے قیام کے لیے قرارداد منظور کی ہے۔ جس کا مقصد مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر جرائم کا خاتمہ کرنا ہے۔ بعد ازاں اس عمل کے تحت سو سے زیادہ مجرموں اور سماج دشمن عناصر کو سزا دی گئی۔

آدتیہ ناتھ سرکار کے تشکیل پانے کے محض تین ماہ بعد 2017 میں اتر پردیش کے منکھی گاؤں کی ایک 17 سالہ لڑکی کو گھر سے غائب کردیا گیا۔

الزام یہ تھا کہ اس وقت کے رکن اسمبلی، بی جے پی کے کلدیپ سنگھ سنگر، ان کے بھائی اتھوپ سنگھ اور ان کے حامیوں نے اس لڑکی کو اغوا کر کے اجتماعی جنسی زیادتی کی ہے۔

اس لڑکی کو مجرموں کے آہنی پنجوں سے تب رہائی ملی جب اس کے والدین نے پولس کے پاس گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔

بعدازاں پولس مذکرہ رکن اسمبلی کے خلاف معاملہ درج کرنے کی ہمت نہ کرسکی۔ اس واقع کے بعد لڑکی کو شادی رچانے پر مجبور کیا گیا اور اغوا کا معاملہ درج کرلیا۔ اس لڑکی کی مصیبت یہی پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ رکن اسمبلی کے حامیوں نے لڑکی کے والد کی ہڈٰی پسلی ایک کردی اور ان پر غیر قانونی طور اسلحہ رکھنے کے الزام میں عائد کیا گیا اور ان کے خلاف معاملہ درج کرایا گیا۔ اس دوران انہیں پولس تھانے منتقل کروادیا۔

ظاہر ہے کہ اس ہراسانی اور قتل کی دھمکیوں سے تنگ آکر لڑکی نے وزیرِ اعلیٰ کے گھر کے سامنے خود کُشی کرنے کی کوشش کی۔ اگلے ہی دن پولس کی حراست میں ان کے والد کی لاش ملی۔

الہٰ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر سی بی آئی نے حرکت میں آکر اس معاملے کی تحقیقاتی کام انجام دیا۔ رکن اسمبلی، ان کے بھائی اور اس معاملے میں ملوث دیگر افراد کو گرفتار کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سی بی آئی نے فوری اقدام نہ کیا بلکہ معاملے کو زائد از ایک برس تک کے لیے طول دیا گیا۔ اس دوران رکن اسمبلی کے بھائیوں نے متاثرہ خاندان کو مختلف طریقوں سے ڈرانا، دھمکانا اور حراساں کرنا شروع کیا یہاں تک کہ انہوں نے مذکورہ لڑکی کے چچا کو قتل کے ایک مبینہ معاملے میں دس برس کی جیل کرادی۔

اتنا ہی نہیں بلکہ رکن اسمبلی نے ایک لاری کا ایکسیڈنٹ کرا کے اس پورے خاندان کو ہی کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعہ میں اگرچہ لڑکی اور ان کے وکیل زخمی ہوکر بچ نکلے تاہم ان کے دو رشتہ داروں کی موت ہوگئی۔

جب یہ واقعہ لوگوں کی نظروں میں آیا تو انہوں نے احتجاج کیا۔ اتر پردیش کی بی جے پی قیادت نے رکن اسمبلی کو پارٹی سے معطل کردیا اور پھر عدالت نے مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنا دی۔

گزشتہ 17 جولائی کو جب مذکورہ لڑکی نے اپنی جان کو خطرہ لاحق ہونے کی فریاد کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا تو معاملہ رواں ماہ کے اخیر میں چلا گیا اور پھر سُپریم کورٹ نے اسے دلی کی ایک عدالت کو منتقل کردیا۔

عدالت میں مسلسل شنوائیوں کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ رکن اسمبلی ہی اہم مجرم تھے۔ جس کے لئے اس سنسنی خیز معاملے میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

اس سنسنی خیز انناؤ معاملے پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے سُپریم کورٹ نے سولسٹر جنرل کی اس اپیل سے ذرا بھی متاثر ہونے سے انکار کیا کہ عدالت کو متاثرہ کو قانون کے مطابق معاوضہ دینا چاہیے۔ عدالت نے اس کا یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ کیا ملک میں قانون کے مطابق کچھ ہوتا بھی ہے۔عدالت نے اس طرح کے واقعات و جرائم کے بارے میں بعض اہم تبصرے کئے اور ساتھ ہی سوال کیا کہ آخر ملک میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟

اس سب کے باوجود بھی جرائم کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ۔19) کے بعد تو بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا۔ جس کے بعد تو گھریلو تشدد میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ اسی ضمن میں ضروری ہے کہ جرائم کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر قوانین کے نفاد کے ساتھ عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details