اختلاف رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرتے ہوئے بے وفائی کرنے کو ہمارے یہاں سیاسی تدبر قرار دیا جاتا ہے اور اس کی سراہنا کی جاتی ہے۔ سادہ اکثریت سے بر سر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں کا پانچ سال تک ثابت قدم نہ رہ پانا در اصل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا تصور صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔
گزشتہ سال کرناٹک میں کمارا سوامی کی حکومت گرنے کے بعد اب مدھیہ پردیس میں کمل ناتھ کی حکومت گرنے کی باری ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کی جانب سے ایک دوسرے کو ’’ ایک کے بدلے تین وکٹ گرانے ‘‘ جیسی دھمکیوں کے بیچ جوتیرآدتیہ نے اپنے ممبران اسمبلی سمیت بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔
کانگریس کو جب پندرہ سال تک انتظار کرنے کے بعد مدھیہ پر دیش میں بر سر اقتدار آنے کا موقعہ ملا، تو سونیا گاندھی نے سینیارٹی کی بنیاد پر کمل ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں اپنی رائے دی۔ اس فیصلے کو جوتیر آدتیہ نے قبول کیا۔ لیکن اُنہیں پردیش کانگریس کا صدر نہ بنائے جانے اور راجیہ سبھا کی رُکنیت نہ دینے کے فیصلے سے وہ مایوس ہوگئے۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ گروہی سیاست کے نتیجے میں اب کمل ناتھ کی حکومت اور اس کی قوت کو ایک چیلنج درپیش ہے۔جوتیر آدتیہ سندھیا کے ہم خیال اراکین اسمبلی مدھیہ پر دیش چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں چلے گئے ہیں۔ اس سے پارٹی اور اسکے ممبران اسمبلی کے درمیان خراب رشتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ منتخب نمائندوں کے نظریات اور وفاداری کے اوصاف کی کتنی کمزوری ہے ۔ اس کی وجہ سے ہی جمہوریت ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ دل بدلی کا رجحان اب تمام ریاستوں میں پھیل گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ رجحان یہاں طویل عرصے تک رہے گا۔سابق لوک سبھا سپیکر ابی رائے نے کہا تھا، ’’ اختلاف رائے کا اظہار ایک آزاد سماج کی علامت ہے لیکن یہ اختلاف رائے بدنیتی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘
شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اختلاف رائے اپنے آپ میں کوئی بیماری نہیں ہے۔ بلکہ یہ بڑی بیماریوں کی ایک علامت ہے۔ بیماری کو ٹھیک کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں میں مکمل اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔کیا کوئی سیاسی جماعت انتخابات لڑنے کیلئے اُمیدواروں کاچناؤ ان کے عہد و پیمان اور ان میں جوابدہی کے جذبے کو دیکھ کر کرتی ہے۔عمومی طور پر سیاسی جماتیں ذات اور مذہب دیکھ کر اُمید وار چنتے ہیں۔ دولت مند اور طاقتور اُمیدواروں کا چاہے مجرمانہ پس منظر ہی کیوں نہ ہو، ان دنوں انہیں ہی الیکشن لڑنے کیلئے مناسب اُمیدوار سمجھا جاتا ہے۔ اسی پس منظر کو دیکھ کر انہیں الیکشن کے لئے پارٹی منتخب کرتی ہے اور یہ لوگ بھی موقعہ دیکھ کر کود پڑتے ہیں۔