اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

عدلیہ پر سیاسی دھبہ - جسٹس گوگوئی کی راجیہ سبھا کے لئے حالیہ نامزدگی

جسٹس گوگوئی کی راجیہ سبھا کے لئے حالیہ نامزدگی کو دانشور تنقیدی نگا ہ سے دیکھ رہے ہیں۔اس نامزدگی کے ردِ عمل میں عدالتِ عظمیٰ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مدن بی لوکر نے کہا کہ ملک کا آخری قلعہ بھی ڈھہ چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی فوری نامزدگی نے اْنہیں اْ لجھا کر رکھ دیا ہے اور اس اقدام سے عدلیہ کی آزادی، سا لمیت اور غیر جانبداری اثر اندازہو ۔

عدلیہ پر سیاسی دھبہ
عدلیہ پر سیاسی دھبہ

By

Published : Mar 24, 2020, 8:59 PM IST

جسٹس گوگوئی اْن لوگوں میں سے ایک شخص ہیں جنہوں نے سال 2018میں اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک عدالتِ عظمیٰ ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کی حیثیت سے اپنی شناخت برقرار نہیں رکھتی ہے تب تک ملک میں جمہوریت کی کوئی بقا ء نہیں ہے۔ لیکن جسٹس گوگوئی کی راجیہ سبھا کے لئے حالیہ نامزدگی کو دانشور تنقیدی نگا ہ سے دیکھ رہے ہیں۔اس نامزدگی کے ردِ عمل میں عدالتِ عظمیٰ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مدن بی لوکر نے کہا کہ ملک کا آخری قلعہ بھی ڈھہ چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی فوری نامزدگی نے اْنہیں اْ لجھا کر رکھ دیا ہے اور اس اقدام سے عدلیہ کی آزادی، سا لمیت اور غیر جانبداری اثر اندازہو گی۔

آیئن کی دفعہ 80کے مطابق صدر ہند اپنی طرف سے مختلف شعبوں کے 12افراد کو نامزد کر سکتے ہیں۔تنقید اس بات پر ہو رہی ہے کہ مودی حکومت نے بھی جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کے لئے نامزد کر کے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔اگرچہ جسٹس گوگوئی نے جواب میں کہا ہے کہ کبھی کبھی قانون ساز اداروں اور عدلیہ کو ملک کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا پڑتا ہے لیکن دوسرے ریٹائرڈ جج جسٹس کورین جوزف نے اس کے ردِ عمل میں کہا کہ گوگوئی نے عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی کے اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔

جسٹس گوگوئی کی نامزدگی کے خلاف عدالت میں ایک مفاد عامہ کے تحت ایک عرضی بھی داخل کی گئی ہے۔یہ معلوم نہیں کی یہ قانونی تنازعہ کب اختتام کو پہنچے گا تاہم آزاد عدلیہ کے حامی فی الوقت پریشانی کے عالم میں مبتلا ہیں ۔عدالت نے سال 1973میں کیسوآنند بھارتی معاملے میں کہا تھا کہ "آزاد عدلیہ جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ہے"۔لہٰذا کولیجیم (collegium)کے بنیادی ڈھانچے میں عدالتِ عْظمیٰ کی مستحکم حیثیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہے۔

سال 1973میں جسٹس اے این رائے اور سال 1977میں میں جسٹس ایم ایچ بیگ کی بطور چیف جسٹس کے تقرری سے کانگریس کی ناروا سیاست نے پہلے ہی عدالتی نظام کو دھچکہ پہنچایا ہے۔بی جے پی شروع سے ہی عدالتی نظام میں وفاداری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ارون جیٹلی نے سال 2012میں احتجاج کیا تھا کہ اگرچہ ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی حد مقرر ہے لیکن حکومت کا رویہ عدالتی امور میں غیر جانبداری کو متاثر کر رہا ہے اور اس طرز عمل کا مقابلہ کرنے کے لئے وقت مناسب ہے۔

جسٹس پی سدا شوم جو اپریل 2014میں فارغ التحصیل ہوئے تھے انہیں اسی سال ستمبر کے مہینے میں کیرالہ کا گورنر تعینات کیا گیا۔جسٹس آدرش گوئل جو لائی 2018کو ریٹائر ہو ئے ان کو اسی دن نیشنل گرین ٹریبیونل کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔یہ بات سچ ہے کہ جسٹس ہدایت اللہ سال 1979میں بھارت کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، لیکن یہ تب ہوا جب انہیں ریٹائر ہوئے 9سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔

پہلی خاتون جج کو آندھرا پریدیش اور تامل ناڈو کا گورنر تعینات کیا گیا لیکن یہ تعیناتی اْن کی ریٹائرمنٹ کے پانچ سال بعد ہوئی۔جسٹس رنگانند مشرا جو سال 1991میں چیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے سال 1998میں کانگریس کی حمایت سے راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔

بی جے پی کا کہنا ہے جسٹش مشرا کو سکھوں کے قتل عام کے کیس میں اْن کے سازگار موقف کی وجہ سے راجیہ سبھا کی رکنیت سے نوازا گیا۔اب گوگوئی کو راجیہ سبھا کے لئے نامزد کرنے سے بی جی پی کو اسی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ سب امور عدالتی نظام کے وقار کو برقرار رکھنے کے لئے مخصوص اصلاحات کی ضرورت کو اْجاگر کر رہے ہیں۔

جسٹس سدا شوم کو کیرالہ کاگورنر تعینات کئے جانے کے خلاف بھی عوامی مفاد کی ایک عرضی عدالت میں دائر کی گئی تھی جس میں عدلیہ کے نظام کو بچانے کی درخواست کی گئی تھی۔اکتوبر 2014میں عدالت نے اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے جسٹس ایچ این دتو اور جسٹس ایس اے بوبڈے جو موجودہ چیف جسٹس ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ وہ ریٹائرڈ ججوں کے کوئی عہد ہ قبول کرنے یا کام لینے پر روک نہیں لگا سکتے ہیں۔

لا کمیشن نے سال 1958میں ریٹائرڈ ججوں کو دیے جانے والے اسائنمنٹس کے بارے میں وضع کردہ رہنما اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی 14ویں رپورٹ میں کہا تھا کہ ججوں کی آزادی پر حملہ کرنے کے رجحان کو بند کیا جائے ۔ چونکہ اس طرح کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا لہٰذا عدلیہ پر سیاسی بد دیانتی کی وجہ سے مرتب ہونے والے منفی اثرات کے حوالے سے خدشات بھی ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔

جسٹس ار ایم لودھا جو 2014میں ریٹائر ہوئے انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کسی بھی جج کو ریٹائر ہونے کے بعدکم از کم دو سال تک کوئی بھی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے۔ایک طرف جہاں عدالتِ عظمیٰ نے صاف کیا ہے کہ اس طرح کی پابندی کو نافذ نہیں کیا جا سکتا ہے وہیں دوسری طرف حکومت نے بھی راجیہ سبھا کوگذشتہ فروری میں یہی کچھ بتایا۔

لا کمیشن نے اس بات کو واضح طورپر صاف کیا ہے کہ جن معاملات کے ساتھ حکومت کے مفادات وابستہ ہوں(پچاس فیصد معاملات میں )ان معاملات میں ججوں میں یہ امید اجاگر ہو سکتی ہے کہ اگر وہ حکومت کا ساتھ دیں گے تو ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں مراعات اور انعام سے نوازا جا سکتا ہے۔اس سے نظام ِ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کی راہ میں رکاوٹ آئے گی۔لہٰذا اگر ججوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعیناتی یا کوئی عہدہ قبول کرنے پر چھہ سال تک کی قانونی پابندی لگائی جائے تو عدلیہ پر حکومت کی طرفداری کاکوئی بھی دھبہ بھی نہیں لگے گااور ساتھ ہی عدلیہ کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details