جسٹس گوگوئی اْن لوگوں میں سے ایک شخص ہیں جنہوں نے سال 2018میں اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک عدالتِ عظمیٰ ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کی حیثیت سے اپنی شناخت برقرار نہیں رکھتی ہے تب تک ملک میں جمہوریت کی کوئی بقا ء نہیں ہے۔ لیکن جسٹس گوگوئی کی راجیہ سبھا کے لئے حالیہ نامزدگی کو دانشور تنقیدی نگا ہ سے دیکھ رہے ہیں۔اس نامزدگی کے ردِ عمل میں عدالتِ عظمیٰ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مدن بی لوکر نے کہا کہ ملک کا آخری قلعہ بھی ڈھہ چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی فوری نامزدگی نے اْنہیں اْ لجھا کر رکھ دیا ہے اور اس اقدام سے عدلیہ کی آزادی، سا لمیت اور غیر جانبداری اثر اندازہو گی۔
آیئن کی دفعہ 80کے مطابق صدر ہند اپنی طرف سے مختلف شعبوں کے 12افراد کو نامزد کر سکتے ہیں۔تنقید اس بات پر ہو رہی ہے کہ مودی حکومت نے بھی جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کے لئے نامزد کر کے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔اگرچہ جسٹس گوگوئی نے جواب میں کہا ہے کہ کبھی کبھی قانون ساز اداروں اور عدلیہ کو ملک کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا پڑتا ہے لیکن دوسرے ریٹائرڈ جج جسٹس کورین جوزف نے اس کے ردِ عمل میں کہا کہ گوگوئی نے عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی کے اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔
جسٹس گوگوئی کی نامزدگی کے خلاف عدالت میں ایک مفاد عامہ کے تحت ایک عرضی بھی داخل کی گئی ہے۔یہ معلوم نہیں کی یہ قانونی تنازعہ کب اختتام کو پہنچے گا تاہم آزاد عدلیہ کے حامی فی الوقت پریشانی کے عالم میں مبتلا ہیں ۔عدالت نے سال 1973میں کیسوآنند بھارتی معاملے میں کہا تھا کہ "آزاد عدلیہ جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ہے"۔لہٰذا کولیجیم (collegium)کے بنیادی ڈھانچے میں عدالتِ عْظمیٰ کی مستحکم حیثیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہے۔
سال 1973میں جسٹس اے این رائے اور سال 1977میں میں جسٹس ایم ایچ بیگ کی بطور چیف جسٹس کے تقرری سے کانگریس کی ناروا سیاست نے پہلے ہی عدالتی نظام کو دھچکہ پہنچایا ہے۔بی جے پی شروع سے ہی عدالتی نظام میں وفاداری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ارون جیٹلی نے سال 2012میں احتجاج کیا تھا کہ اگرچہ ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی حد مقرر ہے لیکن حکومت کا رویہ عدالتی امور میں غیر جانبداری کو متاثر کر رہا ہے اور اس طرز عمل کا مقابلہ کرنے کے لئے وقت مناسب ہے۔
جسٹس پی سدا شوم جو اپریل 2014میں فارغ التحصیل ہوئے تھے انہیں اسی سال ستمبر کے مہینے میں کیرالہ کا گورنر تعینات کیا گیا۔جسٹس آدرش گوئل جو لائی 2018کو ریٹائر ہو ئے ان کو اسی دن نیشنل گرین ٹریبیونل کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔یہ بات سچ ہے کہ جسٹس ہدایت اللہ سال 1979میں بھارت کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، لیکن یہ تب ہوا جب انہیں ریٹائر ہوئے 9سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔