پولینڈ کے طالب علم سیڈ زینسکی نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر کے اس حکم کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
نوٹس میں سیڈزینکسی کو کہا گیا تھا کہ وہ چودہ دنوں کے اندر ملک چھوڑ دے، غیر ملکی ریجنل رجیسٹریشن آفس کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری نوٹس میں حکومت مخلاف سرگرمیوں کا حوالہ دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس طرح کی سرگرمیاں ویزا قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
طالب علم کے وکیل جینتا مترا نے ہائی کورٹ سے بتایا کہ سیڈزینسکی نے 19 دسمبر کو نیو مارکیٹ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں شامل ہوا ہے اور اسے جادھو پور یونیورسٹی کے طالب علموں کی جانب سے اس مظاہرے میں شامل ہونے کے لیے زور دیا گیا تھا۔
سیڈزینسکی کا دعویٰ ہے کہ اس نے نادانستہ طور پرایسا کیا، سیڈ زینسکی نے مزید کہا کہ 'یہ ایک پرامن احتجاج تھا جس میں معاشرے کے تمام طبقات کے افراد نے شرکت کی تھی، لیکن وہ جلد ہی بھیڑ سے الگ ہو گیا اور محض دیکھنے والوں کی طرح وہاں وہ موجود رہا۔
مترا نے الزام لگایا کہ سیڈزینسکی کو جاری کیا گیا نوٹس 'من مانی اور انسانی اقدار کے بنیادی اصولوں کے منافی اور آئین کی صریح خلاف ورزی ہے'، وکیل نے مزید کہا کہ سیڈ زینسکی کو نوٹس جاری کرنے سے قبل اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا گیا، اور اس کی باتیں نہیں سنی گئی۔
پولینڈ کے طالب علم نے مظاہرے میں شرکت پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ اسے اپنی 'غلطی' کا احساس ہو گیا ہے، اس کے وکیل نے کہا کہ وہ فائنل سمسٹر میں ہیں اور ان کے امتحانات اگست 2020 تک مکمل ہونے والے ہیں۔
سیڈزینسکی جادوپور یونیورسٹی میں تقابلی ادب کے طالب علم ہیں اور وہ پولش سے بنگالی زبان میں متعدد تراجم بھی کرتے رہے ہیں ، طالب علم نے وزارت داخلہ کے تحت آنے والی غیر ملکی ریجنل رجسٹریشن آفس سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے'۔
گزشتہ ہفتے مغربی بنگال کی وِسوا بھارتی یونیورسٹی میں بنگلہ دیشی طالب علم کو ملک چھوڑنے کے لیے اس وقت کہا گیا تھا جب وہ یونیورسٹی کیمپس میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں شامل ہونے پر اسے حکومت مخالف سرگرمیوں میں حصہ لینے کا الزام عائد کیا گیا
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ان سبھی کی تصاویر منظر عام پر آئی تھی اور انہیں بھارت چھوڑنے کو کہا گیا تھا، اس کے علاوہ چننئی میں بھی ایک جرمن ایکسچینج کے طالب علم کو مظاہرے میں شامل ہونے پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ کیرل میں ایک ناروے کے سیاح کو بھی ملک چھوڑنے کو کہا گیا تھا۔