سپریم کورٹ اس ماہ کے آخر میں ایک درخواست کی سماعت کرے گی جس میں کورونا وائرس کے پیش نظر ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کے بعد سے معاشی سرگرمیوں پر تعطل کے باعث ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
سنٹر فار اکاونٹبلیٹی اینڈ چینجنسن نے ایک درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ مختلف محکموں کی جانب سے کوویڈ 19 سے نمٹنے کے لیے مختلف قدم اٹھائے جارہے ہیں جس کے باعث پریشانی اور لاقانونی پھیل رہی ہے۔
سپریم کورٹ میں ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کی درخواست لاک ڈاؤن کے سبب معاشی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ملک بھر میں دفعہ 360 کے تحت معاشی ایمرجنسی نافذ کردی جائے۔
درخواست میں یہ بھی گذراش کی گئی ہے مرکز کو ہدایت دی جائے کہ وہ تمام ضروری بلس جیسے کہ برقی کا بل ، پانی کا بل گیس اور ٹیلی فون کا بل انٹرنیٹ اور ای ایم آئی وغیرہ کی وولی کو بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملتوی کردیا جائے۔
حالانکہ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے یہ واضح کردیا تھا کہ ملک میں کوئی بھی معاشی ایمرجنسی نافذ نہیں کی جائے گی جیسا کہ بعض اطلاعات میں دعوی کیا گیا تھا۔ لیکن ملک کے معاشی حالات معاشی ایمرجنسی کی طرف دلالت کررہے ہیں۔
معاشی ایمرجنسی ان تین ایمرجنسیوں میں شامل ہیں جنہیں بھارتی دستور میں شامل کیا گیا ہے۔ معاشی ایمرجنسی دستور کی دفعہ 360 کے تحت اس وقت نافذ کی جاتی ہے جب ایسی صورتحال پیدا ہوجائے جس کے ذریعہ بھارت یا اس کے علاقے کے کسی بھی حصے کے مالی استحکام یا ساکھ کو خطرہ ہو۔
ایک مرتبہ جب معاشی ایمرجنسی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور ہوجاتی ہے تو یہ اس وقت تک جاری رہتی ہے جبکہ کہ صدر جمہوریہ خود اسے منسوخ نہ کردیں۔
ایک بار نافذ ہونے کے بعد مرکزی ایگزیکٹو اتھارٹی کسی بھی ریاست کو حکمنامہ جاری کرتے ہوئے اس میں مزید توسیع کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ صدرجمہوریہ جو بھی ضروری سمجھے ریاستی حکومتوں کو ہدایات جاری کرسکتے ہیں۔