ان کے والد 1920 میں کانگریس پارٹی میں سرگرم ہونے کے ساتھ مغربی بنگال اسمبلی میں 1952 سے 1964 تک رکن اور ویربھوم (مغربی بنگال) ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر رہ چکے تھے۔
ان کے والد ایک معزز مجاہد آزادی تھے، جنہوں نے برطانوی اقتدار کی مخالفت کے نتیجے میں دس سال سے زیادہ جیل کی سزا بھی کاٹی تھی۔
پرنب مکھرجی نے ویربھوم کے ودیاساگر کالج میں تعلیم حاصل کی جو اس زمانے میں کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک تھا۔ 13 جولائی 1957 میں سروا مکھرجی سے ان کی شادی ہوئی۔
ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ پڑھنا لکھنا، باغبانی کرنا اور موسیقی ان کے شوق تھے۔
مکھرجی کہتے تھے ک، 'بنگال کے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں دیپک کی روشنی سے دہلی کی جگمگاتی روشنی تک کے اس دورے کے دوران میں نے بڑے اور کچھ حد تک ناقابل اعتماد تبدیلیاں دیکھی ہیں۔'
ملک کے 13 ویں صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد اپنی تقریر میں پرنب مکھرجی نے کہا تھا کہ اس وقت میں بچہ تھا، جب بنگال میں قحط نے لاکھوں لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ وہ درد اور دکھ میں بھولا نہیں ہوں۔
اسکول جانے کے لیے اکثر دریا تیر کر پار کرنے والے پرنب نے زمین سے اٹھ کر کئی مقام حاصل کئے اوربالآخر ملک کے سپریم شہری بن گئے۔ اقتدار کے ایوانوں میں انہیں نقص گیر کہا جاتا تھا۔ کچھ وقت کے لیے پرنب دا نے وکالت بھی کی اور اس کے ساتھ ہی صحافت اور تعلیم کے علاقے میں بھی کچھ وقت گزرا۔ اس کے بعد ان کا سیاسی سفر شروع ہوا۔
سیاست میں پرنب مکھرجی کا پہلا عملی قدم 1969 میں اس وقت پڑا جب انہیں راجیہ سبھا کے لیے منتخب کیا گیا۔ سیاسی زندگی میں تقریباً 35 سال بعد انہوں نے پہلی بار لوک سبھا کا رخ کیا اور 2004 میں مغربی بنگال کے جنگی پور پارلیمانی حلقہ سے منتخب ہوئے۔
پرنب دا کئی مرتبہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے۔ اس اہم عہدے پر نہ ہوتے ہوئے بھی بحران کے وقت سب لوگ ان کی طرف ہی دیکھتے تھے۔1980 کی دہائی میں وزیر اعظم کے عہدے کی حسرت نے انہیں کانگریس سے الگ کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی ایک نئی پارٹی بنائی لیکن جلد ہی وہ دوبارہ کانگریس کا حصہ بنے اور نئی سیاسی بلندیوں کا سفر کیا۔
پی وی نرسمہا راؤ نے 1991 میں انہیں وزیر خارجہ بنانے کے ساتھ ہی منصوبہ بندی کمیشن کا نائب صدر کا عہدہ دیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں وہ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ وزیر خزانہ کے عہدوں پر رہے۔