مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ہی پورے ملک کی سیاسی صورتحال میں تبدیل ہو گئی ہے جبکہ اس تعلق سے ملا جلا رد عمل آ رہا ہے۔
آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد سے دیگر ممالک کی جانب سے بھی ملا جلا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے جبکہ اس معاملے میں پاکستان نے جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے پر بھارت سے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت کا عمل معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ہونے والے بیان مین بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اجلاس کے بعد جاری پانچ نکاتی اعلامیے کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پرائم منسٹر آفس میں ہونے والے اجلاس میں کمیٹی نے سفارتی تعلقات محدود کرنے اور دو طرفہ تجارت معطل کرنے کے علاوہ تمام دو طرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے علاوہ پاکستانی فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کےسربراہ، وزیر قانون اور دیگر افراد شریک ہوئے۔
اس کے علاوہ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھی اٹھائے گا جبکہ 14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا جبکہ 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منانے کا فیصلے بھی کیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر قانونی، سیاسی، سفارتی ردعمل سے متعلق تجاویز پر غور کیا اور بھارتی حکومت کے فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتحال اور ایل او سی کے حالات پر مشاورت کی۔
واضح رہے کہ منگل کو پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر بحث کے بعد وزیراعظم عمران خان نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر ردعمل ترتیب دینے کے لیے سات رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔