لوک سبھا میں مختلف وجوہات سے فصل کو ہوئے نقصانات اوراس کے کسانوں پر اثرات پرقانون 193 کے تحت بحث کی ابتدا کرتے ہوئےکانگریس کے، کے۔سریش نے یہ الزام لگایا۔
انہوں نے کہا کہ اناج کی پیداوار کم ہورہی ہے۔ بے موسم برسات اور سیلاب کی وجہ سےآندھرا پردیش، گجرات، مہاراشٹر، اترپردیش اور مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں کے 137 اضلاع متاثر ہوئے ہیں، لیکن حکومت کسانوں کو ہوئے نقصانات کی کوئی بھرپائی نہیں کررہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کے پاس فصل قرض معافی کی تجویز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس معاملے میں وقفے وقفے سے دیئے گئے سفارشات کا بھی نفاذ نہیں کیا جارہا ہے۔ کسانوں سے متعلق سرکاری پروگرام آدھے ادھورے ہیں۔ قرض کے بوجھ تلے دبے کسان خودکشی کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2016 میں 11379 کسانوں نے خودکشی کی یعنی ہر ماہ 948 کسان خودکشی کررہے ہیں۔
پارلیمنٹ میں آسمان چھوتی قیمتوں کی جانب ایوان کی توجہ مرکوز کراتے ہوئے کہا کہ پورے ملک بھر کے بازاروں میں پیاز 90 سے 120 روپے فی کلوگرام فروخت ہورہا ہے۔ بڑے شہروں میں اس کی قیمتیں 130روپے تک پہنچ گئی ہیں لیکن مہاراشٹر کے کسان اسے محض آٹھ روپے فی کلوگرام فروخت کررہے ہیں۔
قیمتوں میں ہوئے اضافے کا کوئی فائدہ کسانوں تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ موسم کی مار، آب وہوا کی تبدیلی اور قرض لوٹانے کے لئے بینکوں کے دباؤ سے کسان زبردست پریشانی جھیل رہے ہیں۔
کے سریش نے کیرالہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی آفات کی وجہ سے ریاست کی 52 فیصد آبادی مسائل جھیل رہی ہیں۔ یہاں 70 فیصد لوگوں کی زندگی ماہی گیری، مویشی پروری اور کھیتی پر انحصار کرتی ہے۔ قدرتی آفات کی وجہ سے تقریبا 4 اعشاریہ 3 فیصد جانور ہلاک ہوچکے ہیں۔ کروڑوں روپے کی فصل اور جائیداد کا نقصان ہوا ہے۔حکومت کو انہیں مصیبتوں سے نکالنے کے لئے معاوضہ دینا چاہئے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ویریندر سنگھ نے کہا ہے کہ ہر مرتبہ کسانوں کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لئے پارلیمنٹ ہمیشہ سنجیدہ رہتی ہے۔ برسراقتدار اور اپوزیشن دونوں ہی کسانوں کے مشکلات حل کرنا چاہتے ہیں لیکن جب ایک حکومت کام کرتی ہے تو اپوزیشن میں موجود پارٹی کو پریشانی ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل نہیں نکل سکا ہے۔