ریاست اتر پردیش کے شہر بنارس میں شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے زیر اہتمام پندرہ روزہ قومی ورکشاپ بہ عنوان 'تحقیق، فن اور طریق کار' کے افتتاحی اجلاس میں مہمان خصوصی شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاد پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے کہا کہ دنیا کی ترقی اور کامرانی میں تحقیق کا رول کلیدی ہے۔ کسی فن پارے کی تنقید بغیرتحقیق کے غیر معتبر ہو جاتی ہے۔
جہاں تک زبان و ادب کا تعلق ہے تحقیق ان معنوں میں ایک ناگزیر عمل ہے کہ تحقیق جہاں نا معلوم سے معلوم کی طرف لے جاتی ہے وہیں بہت سارے گڑھے ہوئے مفروضے کو تہس نہس کرتی ہے۔
یہ درست ہے کہ تنقید کھرے کھوٹے کو الگ کرتی ہے لیکن بغیر تحقیق کے کسی تخلیقی نگارشات کی جانچ پرکھ بسا اوقات غلط تعبیر پیش کر دیتی ہے جس کی عمدہ مثال مجنوں گورکھپوری کا وہ مضمون ہے جس میں امیرؔکے شعر کو میرؔ کا قرار دے کر ا پنا معروضہ پیش کیا ہے۔
اس لیے محقق کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ معتبر متن کی دریافت کا معاملہ ہو یا ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو جوڑنے کا عمل بغیر تحقیق کے ممکن نہیں۔
پروفیسر ثاقب نے مزید کہا کہ شعبہ اردو، بنارس ہندو یونیورسٹی نے جس موضوع پر ورکشاپ کا انعقاد کیا ہے میری دانست میں ابھی تک کسی دوسری یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے اس طرف توجہ نہیں دی ہے۔
اس موقع پر ہندی کے ممتاز نقاد و دانشور پروفیسر اودھیش پردھان نے شعبہ اردو کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس شعبے نے گذشتہ دو برسوں میں جن موضوعات پر قومی اور بین الاقوامی سیمینار، مذاکرے اور مباحثے کا انعقاد کیا ہے وہ اکادمی جگت کے لیے ایک نقش اول کی حیثیت رکھتا ہے۔