کورونا وائرس کی وباء کے نتیجے میں پیدا شدہ اقتصادی بدحالی سے نمٹنے کے لئے 27ممبرممالک پر مشتمل سیاسی اور معاشی اتحاد یورپی یونین مالی مدد کی فراہمی کی تجویز پر غور کررہا ہے۔ اٹلی ، جہاں اب تک چین سے بھی زیادہ اموات ہوچکی ہیں ،اس نے بھی یو رپین یونین سے کہا ہے کہ وہ کووِڈ19کے نتیجے میں پیدا شدہ معاشی بحران کے تناظر میں بچاؤ فنڈ کا استعمال کرے۔ نئی دہلی میں تعینات یورپین یونین کے سفیراُگو استوٹو کا ماننا ہے کہ وباء سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات اور لاک ڈاؤن وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔
سوال: یورپین یونین کورونا وائرس کے حوالے سے اس وقت کس درجے کے خطرات سے دوچار ہے؟
جواب : یہ وباء اس وقت پوری دُنیا میں پھیل رہی ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح کی کوششیں درکار ہیں۔ہمیں استقلال کے ساتھ عوامی صحت عامہ کی حفاطت کرنی ہوگی اور مزید اموات روکنے کیلئے یک جٹ ہوکر استقلال کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔اس ضمن میں اس وقت یورپ میں ہم نے کئی اہم اقدامات کئے ہوئے ہیں۔ ہم نے سرحدیں بند کرلی ہیں۔ سائنسی شواہد کے تلقین کے عین مطابق ہم نے لاک ڈاؤن کیا ہے۔ہم نے ’’ کووڈکارڈی نیشن‘‘ بھی قائم کی ہے۔ تمام رکن ممالک نے وہ ضروری اقدامات شروع کرلئے ہیں ، جو اس وقت کئے جانے چاہیں۔ہم نے اس بحران کے نتیجے میں متوقع معاشی نقصانات سے نمٹنے کیلئے بھی اقدامات شروع کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے وائرس کے پھیلاؤ نتائج سے نمٹنے کے لئے بھی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ہم اس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔ یورپین یونین کے پاس قابل سائنسداں ہیں ۔ ہم نے اس وباء کی تحقیق اور علاج کے لئے پبلک اور پرائیویٹ فنڈنگ کے ذریعے 140ملین یوروز فراہم کئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم جتنی جلدی ہوسکے ، اس وباء کے تدارک کیلئے ویکسین تلاش کریں ۔اس ضمن میں ہم پوری شفافیت برت رہے ہیں۔یورپین کمیشن اور دیگر کئی ویب سائٹس پر ہم نے اعداد و شمار اور اطلاعات میسر رکھی ہوئی ہیں۔ ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ کھلے اور درست اطلاعات کی فراہمی اس بحران سے نمٹنے میں ضروری ہے۔مقامی اور قومی سطح کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم عالمی سطح پر بھی متحد ہوکر کام کریں کیونکہ وباء سرحدوں کا لحاظ نہیں رکھتی ہے۔ہمیں اس وقت کثیر الجہتی میکانزم اپنانے کی ضرورت ہے۔
سوال: وباء پھوٹنے کے بعد بھی یورپین یونین میں سرحدوں کی قید کے بغیربھی لوگوں کی آمد و رفت جاری رہی ۔ اس کے نتیجے میں کتنا خطرہ پیدا ہوگیا ہے؟کیا اب کووڈ 19سے متاثرہ مسافروں کی شناخت ممکن ہوپائے گی ؟
جواب: ہم اس پر کام کررہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کار گر ثابت ہورہا ہے ۔ ہم تمام طرح کے ضروری اقدامات کررہے ہیں۔ ہم عوامی صحت عامہ کے تحفظ کے لئے ہر طرح کے اقدامات کررہے ہیں۔ ہم عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مشوروں پر عمل کررہے ہیں۔ ہم صحت سے جڑی تنظیموں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور ہم کئی سخت اقدامات کررہے ہیں۔ کئی ضروری فیصلے لے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم انسانی جذبے کے تحت سماجی اور معاشی معاملات کے حوالے سے بھی اقدامات کررہے ہیں۔فی الوقت عوام کی صحت کو تحفظ فراہم کرانا ہماری اولین ترجیح ہے۔
سوال : بھارت نے یورپین یونین کو بھی سفری پابندی کی فہرست میں شامل کردیا ہے ۔ دوسری جانب جبکہ کئی بھارتی طلبا بھی یورپین یونین کے مختلف شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیا یورپین یونین اور بھارت ایک دوسرے کے شہریوں کے ویزا میں توسیع کررہے ہیں؟
جواب :ہاں ہم ایسا کررہے ہیں۔ انفرادی سطح پر رکن ممالک ایسا کررہے ہیں۔ ہم یورپی یونین کی سطح پر بھی اس مسئلے میں مدد کررہے ہیں۔ہم یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم سب یکساں طور پر اس مسئلے سے دو چار ہیں۔ہمیں نرم رویہ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ایسا کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔خواہ یورپی یونین کے لوگ بھارت میں ہوں یا بھارت کے لوگ یورپ میں ہوں ، ہم شہریوں کی مدد کے حوالے سے وسیع اقدمات کررہے ہیں ۔کیونکہ ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
سوال : کیا آپ کو لگتا ہے کہ سرحدوں کو بند کرنا اس وباء سے نمٹنے کا ایک موثر طریقہ ہے؟ یا پھر سب کو استثنیٰ دینا کوئی حل ہوسکتا ہے؟
جواب:میں کوئی ماہر طب نہیں ہوں ۔ لیکن یورپی یونین سائنسی ماہرین کے مشوروں کے مطابق فیصلے لے رہی ہے۔ہم جو بھی اقدامات کررہے ہیں ، سائنسی شواہد کی روشنی میں کررہے ہیں۔
سوال: اس وباء کے نتیجے میں پیدا شدہ معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لئے حکومتوں کو کس طرح کے پیکیجز فراہم کرنے چاہیں؟