اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

خصوصی رپورٹ: این پی آر در اصل این آر سی کا پہلا قدم ہے

لوگوں کو اندیشہ ہے کہ ملک بھر میں این آر سی اور شہریت قانون کے خلاف زبردست احتجاج کے خوف سے حکومت نے اپنا پینترا بدل لیا ہے، اور اب این آر سی کے بجائے این پی آر سے کام چلانے کی کوشش کی ہے۔

By

Published : Dec 29, 2019, 6:14 PM IST

متعلقہ تصویر
متعلقہ تصویر

ان دنوں ملک بھر میں تین سے چار ابریویشنز ہر ایک کی زبان پر عام ہیں۔ سبھی ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی جستجو میں ہیں۔ اس سے نہ صرف لوگوں میں خوف بلکہ کنفیوژن بھی پھیل رہا ہے، لیکن کوئی ڈھنگ سے بتاتا نہیں کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے۔ تو آئیے دیکھتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ویڈیو

در اصل پہلا ابریویشن ہے 'سی اے بی' یعنی سٹیزنشپ امینڈمنٹ بل، پھر پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے بعد یہی چیز 'سی اے اے' ہو گئی، یعنی سٹیزنشپ امینڈمنٹ ایکٹ، جس کے سبب ملک بھر میں ہنگامہ ہے، حکومت کہتی ہے کہ مخالفت کی کوئی گنجائش ہی نہیں، لیکن مزاحمت اتنی شدید ہے کہ کئی مظاہرین کی جان بھی چلی گئی۔

ایک اور مخفف این آر سی ہے، یعنی نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز، جس کے سبب ڈٹینشن سینٹر کا بھوت پیدا ہوا تھا، اور اب 'این پی آر' یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر ہے، جسے اردو میں مردم شماری کہتے ہیں۔

سب سے پہلے بات کریں گے تازہ معاملہ این پی آر یعنی مردم شماری کی۔ اور سمجھیں گے کہ آخر یہ مردم شماری کیا ہے، اور اس پراتنا ہنگامہ کیوں برپا ہے؟

در اصل مردم شماری بھارت کا سب سے بڑا انتظامی عمل ہوتا ہے۔جو ہر 10 برس میں ایک بار کرایا جاتا ہے۔ اس میں مختلف سطح پر سماجی اور معاشرتی آبادی سے متعلق اہم اعداد و شمار جمع کرائے جاتے ہیں۔ تاکہ اِن اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر ملک کی ترقی اور دیگر معاملات سے متعلق پالیسیز تیار کی جا سکیں۔

موجودہ مردم شماری کا عمل دو مرحلوں میں کیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں یعنی یکم اپریل سنہ 2020 سے اگلے 6 ماہ 30 ستمبر تک مکان کی فہرست سازی ہو گی۔ اور دوسرے میں فروری سے مارچ سنہ 2021 میں آبادی کی گنتی کی جائے گی۔ مکان کی فہرست سازی کا عمل آبادی کی گنتی سے 6 سے 10 ماہ قبل ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ اور یہ مردم شماری آزادی کے بعد کی آٹھویں مردم شماری ہو گی۔

نیشنل پاپولیشن رجسٹر

موجودہ این پی آر سے لوگوں میں اتنی بے چینی اور خوف کیوں ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ در اصل لوگوں کو اندیشہ ہے کہ ملک بھر میں این آر سی اور شہریت قانون کے خلاف زبردست احتجاج کے خوف سے حکومت نے اپنا پینترا بدل لیا ہے، اور اب این آر سی کے بجائے این پی آر سے کام چلانے کی کوشش کی ہے۔ در اصل این پی آر کے دوران دستاویزات میں معمولی سی غلطی کی صورت میں جونیئر افسر کو ڈاوٹ فُل یعنی مشکوک شہری لکھنے کا اختیار ہو گا۔

لوگوں کا اندیشہ ظاہر کرتا ہوا خاکہ

اور اگر کوئی بھی شہری مشکوک لکھ دیا گیا، تو این آر سی ہونے کی صورت میں بھارت کی شہریت ثابت کرنے کے لیے انتہائی جد و جہد کرنی پڑ سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ این پی آر کو این آرسی سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں، اور لوگوں کو نہ صرف شہریت جانے کا خطرہ ہے، بلکہ ملک میں بد امنی پھیلنے کا بھی اندیشہ ہے۔

این پی آر در اصل این آر سی کا پہلا قدم ہے

جب حکومت بار بار کہ رہی ہے کہ این پی آر اور این آر سی میں کوئی تعلق نہیں ہے، تو لوگ اس پر یقین کیوں نہیں کر رہے ہیں۔

در اصل حکومت کی باتوں پر لوگوں کو اس لیے نہیں یقین ہو رہا ہے، کیوںکہ وزارت داخلہ کی سالانہ رپورٹ میں یہ بات صاف صاف لکھی ہوئی ہے کہ این پی آر این آر سی کی طرف پہلا قدم ہے۔ سالانہ رپورٹ میں چیپٹر 15 کے پوائنٹ نمبر 4 اور صفحہ نمبر 262 پر یہ بات لکھی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے کہ این پی آر کا این آر سی سے تعلق ہے، اور گہرا تعلق ہے۔

وزارت داخلہ کے سالانہ رپورٹ کے چیپٹر 15 اور صفحہ نبر 262 پر درج ہائلائٹیڈ تحریر

یہی نہیں بلکہ 26 نومبر سنہ 2014 کے پریس انفارمیشن بیورو کی پریس ریلیز میں بھی ٹھیک یہی بات درج ہے، یعنی این پی آر این آر سی کی طرف پہلا قدم ہے۔ اسی لیے حکومت کا یہ کہنا کہ دونوں میں کوئی تعلق نہیں ہے، بالکل بے معنی اور غلط ہے۔ اسی لیے لوگوں کو حکومت کی باتوں پر بھروسہ نہیں ہو رہا ہے۔

سنہ 2014 میں پریس انفارمیشن بیورو میں این پی آر سے متعلق درج کی گئی تحریر

اور انہی وجوہات کے پیش نظر فی الحال کیرالہ اور مغربی بنگال کی حکومت نے این پی آر کرانے سے صاف انکار کردیا ہے۔

کیا حکومت کا یہ دعوی درست ہے کہ این پی آر کی دستاویزات این آر سی کے لیے استعمال نہیں ہوں گے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے نیوز ایجنسی اے این آئی سے انٹرویو کے دوران وضاحت کی تھی، کہ این پی آر کی دستایزات این آر سی کے لیے استعمال نہیں ہوں گی۔ ان کا یہ دعوی اس وقت غلط ثابت ہو جاتا ہے جب ہم 23 جولائی سنہ 2014 کی وہ کاپی دیکھتے ہیں، جس میں مرکزی وزیر کرن رجیجو نے راجیہ سبھا میں کانگریس کے رہنما بی کے ہری پرساد کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، کہ این پی آر کی دستاویزات کو بنیاد بنا کر ہی این آر سی تیار کی جائے گی۔

سب سے نیچے سنہ 2014 میں مرکزی وزیر کرن رجیجو کا این پی آر سے متعلق جواب

اس کے ساتھ ہی قانون کے جانکار گوتم بھاٹیا نے سنہ 2003 کے شہریت قانون کے اُس رول کی بات کہ کر حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی، جس میں یہ صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ این پی آر کی دستاویزات کو بنیاد بنا کر ہی این آر سی تیار کی جائے گی اور سرکاری افسر کو شک کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو ڈاوٹ فل یعنی مشکوک لکھنے کا اختیار ہو گا۔ اس لیے این آر سی ہونے کی صورت میں ایسے مشکوک شہری کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایسے میں جب ایک عام شہری ان تمام سرکاری دستاویزات کو دیکھتا ہے، اور دوسری طرف حکومت کی باتیں سنتا ہے، تو اسے کنفیوژن اور خوف کا احساس ہوتا ہے، کیوں کہ حکومت کی دستاویزات اور حکومت کی باتوں میں تضاد بالکل صاف نظر آتا ہے۔

این پی آر این آرسی کا پہلا قدم کا خاکہ

حکومت کو ایسا کیا کرنا چاہیے جس سے خوف کا ماحول دور ہو؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے حکومت کو متضاد بیانات کے بجائے اپنا موقف واضح کرنا چاہیے، تاکہ صحیح یا غلط سے قطع نظر حکومت کی منشا سمجھی جا سکے، بعد ازاں جو بھی باتیں دستاویزات میں درج ہیں، انہیں عوام کی فلاح اور سہولت کے مد نظر ترمیم کرنا چاہیے، جس سے کسی کو شک کرنے کا کوئی جواز نہ ہو۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے قانون کا راج نافذ کرنے کے لیے لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہو گا، یہی اس پریشانی کا حل ہے، اور اسی کو اختیار کرنا ہو گا۔ اس کے بر عکس مختلف باتوں اور دستاویزات میں تضاد کے سبب لوگوں میں کفیوژن اور خوف کا ماحول بڑھے گا۔ ایسا منظر نامہ حکومت اور عوام کے درمیان خلیج وسیع کرسکتا ہے جو کسی بھی جمہوری نظام کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔

عوام اور حکومت کے درمیان بڑھتی دوریاں

اس لیے حکومت کو موجودہ حالات پر انتہائی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک میں بد امنی پھیلنے اور مزید حالات خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details