'جنگلات' انسانی تہذیب کے مرکز ہیں۔ آج بھی درخت انسانی بقا کے ذمہ دار ہیں۔پورے عالم میں جنگلات کی کٹائی کے بیوقوفانہ عمل کی وجہ سے غیر متوقع قدرتی آفات ہورہے ہیں۔جنگلات کی کٹائی سے موسمیاتی تبدیلیاں اور غیر موسمی واقعات رونما ہورہے ہیں۔ بھارت کے سبز احاطہ میں ہورہی تبدیلیوں کے روک تھام کے لیے کیمپا (کمپینسیٹوری ایفوریسٹیشن فنڈ مینجمنٹ اینڈ پلانگ آتھارٹی) ایکٹ کو نافذ کیا گیا ہے۔اس ایکٹ کے تحت بھارت میں 27 ریاستوں میں متبادل اراضی کے لیے47 ہزار کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے۔ریاست اڈیشہ کو 5،933 کروڑ، چھتیس گڑھ کو 5،791کروڑ، مدھیہ پردیش کو 5،196 کروڑ اور جھارکھنڈ کو 4،158 کروڑ روپے دیے گئے۔وہیں ریاست تلنگانہ اور مہاراشٹر دونوں کو تین ہزار کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر نے ان ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ ان رقومات کو شجر کاری، جنگلاتی زندگی کے تحفظ اور جنگل کی آگ کی روک تھام میں استعمال کریں۔انہوں سختی سے ہدایت دی ہےکہ اس فنڈ کا استعمال محکمہ جنگلات کے اسٹاف کو تنخواہ اور معاوضہ کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ریاست پہلے ہی مرکز کی طرف سے جاری ہونے والے معمولی رقم سے پریشان ہے۔
'درخت کا انسانی بقا میں اہم رول' - ورلڈ ریسورس آرگنائیزیشن
ورلڈ ریسورس آرگنائیزیشن کی رپورٹ کے مطابق سال 2001 سے 2018 کے درمیان سرکاری مدد اور بغیر سرکاری مدد کے 16 لاکھ ہیکٹر جنگلات کو تباہ کیا گیا۔
زمین کے معاوضے کے حوالے سے کیمپا بل پاس کیا گیا ہے اور اس زمین پر موجود درختوں کو صنعتی مقاصد کے لیے کاٹا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 2009 میں اس فنڈ سے رقم نکالنے کی اجازت دی تھی جو ریاستوں نے جنگلات کاٹنے کے معاوضے کے طور پر دی تھی۔سال 2014 میں کورٹ نے اجازت دی تھی کہ ریاستوں کے ذریعہ کیمپا ایکٹ کے فنڈ میں جمع کردہ رقم کا 10 فیصد سود وہ واپس لے لیں۔اسی کے وجہ سے اب تک 40 ہزار کروڑ روپے جمع ہوچکے ہیں۔وہیں سال 2018 میں مرکز اس رقم کا 80 فیصدی حصہ ریاست کو تقسیم کرسکتا ہے۔رواں برس ایکٹ میں ترمیم کرکے یہ اخذ کیا گیا تھا کہ فنڈ کا 90 فیصد ریاستوں کو تقسیم کردیا جائے گا۔اتنے زائد کروڑ جمع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ماحول کو بری طرح سے تباہ کیا جاریا ہے۔ریاست مہاراشٹر کے جنوبی کوکن علاقے میں سال 2014 اور 2018 کے درمیان جنگلات معدوم ہوگئے۔ریاست تلنگانہ میں سال 2013 سے 2016 کے درمیان تقریبا چھ لاکھ درخت کو غیر قانونی طریقے سے کاٹا گیا۔ورلڈ ریسورس آرگنائیزیشن کی رپورٹ کے مطابق سال 2001 سے 2018 کے درمیان سرکاری مدد اور بغیر سرکاری مدد کے 16 لاکھ ہیکٹر جنگلات کو تباہ کیا گیا۔تباہ جنگلات کی بحالی کے لیے ریاستوں کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔
مرکزی وزیر جاویڈکر کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں کے دوران جنگلات کے کل احاطہ میں ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔گذشتہ تین برس قبل مرکزی حکومت کے طرف سے کیے سروے کے مطابق بھارت میں جنگلات کا کل احاطہ 7،08،273 مربع کلو میٹر ہے، جو بھارت کے زمین کا 21 فیصد حصہ ہے۔وہیں ایک دوسرے سروے کے مطابق اب اس میں 24 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں۔ نیشنل فارسٹ پالیسی 1952 کے مطابق 33 فیصد جنگلات کا حصول تاحال سراب ثابت ہو رہا ہے۔دنیا کے بہت سارے ممالک اس سلسلے میں اپنے ہدف کو حاصل کررہے ہیں۔ پڑوسی ممالک بھوٹان نے 71 فیصد جنگلات کے حصول کو حاصل کرلیا ہے۔انٹرنیشنل فاریسٹری ریسرچ کے مطابق جنوبی کوریا نے گذشتہ پانچ برس کے دوران جنگلات کے احاطہ کو دوگناہ کردیا ہے۔کوسٹا ریکا نے اپنے 21 فیصد جنگلات کے احاطے میں اضافہ کرکے 52 فیصد کردیا ہے۔مشرقی افریقی ملک تنزانیا نے اپنی شہریوں کی مدد سے 52 فیصد جنگلات کے احاطے میں ہریالی کردی۔ہمارے ریاستوں کو بھی ان ممالک سے متاثر ہوکر تباہ جنگلات کی بحالی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔متبادل جنگلات کے اضافہ سے اصل اور تباہ ہوئے جنگلات کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔تاہم جنگلاتی تحفظ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور جنگل کی کٹائی کم نہیں کی جاتی اس وقت تک ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے سبھی اقدامات بے کار ثابت ہوں گے۔