غربت انسانی زندگی کو خاموشی سے کھوکھلا کرتے چلی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد غربت کا شکار ہیں لیکن آج کے دور کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لیے نافذ کی گئی متعدد ترقیاتی اسکیمز ہی ترقی اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے اصل خطرہ ثابت ہورہی ہیں۔
رواں برس معاشیات کے زمرے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ابھیجیت بنرجی، ان کی اہلیہ ایستھر ڈفلو اور مائیکل کریمر نے غربت کے خلاف لڑنے کے بہترین طریقوں کو جاننے کے لیے تجربات کیے تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے والے بھارتی نژاد امریکی پروفیسر ابھیجیت اور ان کی اہلیہ ڈفلو کی اس کامیابی پر تمام بھارتیوں نے خوشی کا اظہار کیا۔
سنہ 2015 میں اینگوس ڈیٹون کو بھی غربت پر تجربات کرنے پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ابھیجیت، ڈفلو اور کریمر کے دو صدی تک کیے گئے تجربات سے اس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ غربت کی اصل وجہ جانے بغیر غربت کے خاتمے کے نام پر پیش کردہ اسکیمز کے تحت لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں جس پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے تجربات سے واضح ہوتا ہے کہ غربت کے خلاف لڑنا ممکن ہے اور اس کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اس بات کا تجزیہ کر لے کہ کون سے طبقے کو کون سی سہولیات اور ترقیاتی اسکیم کی ضرورت ہے، ان ضرورتوں کی بنیاد پر حکومت بہتر حل تلاش کر سکتی ہے تب ہی ہم غربت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔
سنہ 2003 میں ابھیجیت بنرجی نے عبداللطیف جمیل پورٹی ایکشن لیب کی بنیاد رکھی اور جب انہوں نے غربت کی بنیادی وجوہات جیسے تعلیم کا کم معیار اور اسکول میں بچوں کی صحت سے متعلق موضوع پر تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ہم صحیح اور موثر حل سے یقینی طور پر اس مسئلے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ نوبل کمیٹی نے ستائش کی ہے کہ ان تینوں ماہرین معاشیات کے تجرباتی طریقہ کار واقعی معیشت کی حقیقی ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔
غربت کا خاتمہ کبھی بھی یا کسی بھی شکل میں ہو، اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کی فہرست میں یہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق انسانی زندگی کی 10 فیصد یا 70 کروڑ آبادی غربت کی زندگی بسر کررہی ہے یہاں تک انہیں مناسب تعلیم، صحت، صاف پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے جس سے واضح طور پر کہا جاسکتا ہے سنہ 2030 تک غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔