یہ بات انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تنظیم ابنائے قدیم اے ایم یو الیومنائی ایسو سی ایشن قطر کے زیر اہتمام نئی تعلیمی پالیسی پر منعقدہ ایک ویبینار میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ یوجی سی کے انتخاب پر مبنی کریڈٹ سسٹم سے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا، جس میں طلبہ کو اپنے شوق سے تعلیم مکمل کرنے کا وسیلہ حاصل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں انٹرڈسیپلنری کورس کے ساتھ لچکدار سبجیکٹس پر توجہ دی گئی ہے، جو ایک اچھا قدم ہے۔
فارن یونیورسٹی کا قیام بھی بہتر قدم ہے، بلکہ اس کا قیام 2010 میں ہی ہوجانا چاہئے تھے، جب پہلی بار اس کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ نصاب میں 30 فیصد کی تخفیف، اساتذہ کی ٹریننگ پر توجہ اور پی ایچ ڈی کورس میں براہ راست داخلے کی پہل قابل ستائش ہے۔
لیکن اس نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کی میعاد 2040 تک رکھی گئی ہے، جو کافی طویل عرصہ ہے۔ بورڈ آف ڈائریکٹرس کے سسٹم پر نظرثانی کی جائے اور مزید اقلیتی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں نیز اقلیتی اور محفوظ زمرے کی سیٹوں کا تبادلہ نہ کیا جائے۔
انہوں نے نئی تعلیمی پالیسی کے تحت مادری زبان یا علاقائی زبانوں میں تدریس کی تجویز پراتفاق ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے ابتدائی برسوں میں ذریعہ تدریس مادری زبان ہونا چاہئے تاکہ بنیاد مضبوط ہوسکے، لیکن یہ صرف ابتدائی برسوں یا پری۔ پرائمری کے مرحلے تک ہی محدود رہنا چاہئے۔
پروفیسر فیضان مصطفی نے کہا کہ نئی پالیسی میں مالیاتی ذمہ داری کے تحت جی ڈی پی کا چھ فیصد خرچ کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں ایک قانون ہونا چاہئے جو ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو اس بات پر پابند کرے کہ وہ جی ڈی پی کا ایک متعینہ فیصد تعلیم کے لیے مختص کریں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیمی بجٹ کا 90 فیصد صرف تنخواہ اور پنشن پر خرچ ہوتا ہے اور صرف 10 سے 12 فیصد تعلیمی ترقی، تحقیق اور بنیادی ڈھانچے کے لیے رہ جاتا ہے۔
واضح رہے کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے نئی قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کے تئیں اعلی تعلیمی نظام سے وابستہ اساتذہ، طلبہ، عملہ اور دیگر فریقوں کے مابین بیداری لانے کی اپیل کی ہے۔
مرکزی کابینہ نے قومی تعلیمی پالیسی 2020 کو گزشتہ 29 جولائی 2020 کو منظوری فراہم کردی ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی سے بھارت کے اسکولی اور اعلی تعلیمی نظام میں مکمل تبدیلی رونما ہونے کی امید ہے۔
اس پالیسی کے تحت حق تعلیم ایکٹ 2009 میں توسیع کرنے کی اہم تجویز ہے، جس میں 3 سال سے 18 سال کے بچوں کا احاطہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ اسکولی نصاب کی مشمولات کا بوجھ کم کرنے کی بھی تجویز ہے۔