ملک بھر کی نگاہیں آج کسان اور حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات پر ٹکی ہیں،کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہے۔ مذاکرات میں حکومت کی طرف سے مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر اور مرکزی وزیر پیوش گوئل شامل ہیں۔ جبکہ کسانوں کی جانب سے بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیٹ سمیت بڑے رہنما اپنے موقف کے ساتھ میٹنگ میں شرکت کررہے ہیں۔
کسانوں نے حکومت کو اپنے ایجنڈے کی یاد دلادی ہے جس میں وہ تینوں زرعی قوانین کے ساتھ ساتھ بجلی سے متعلق ایک قانون واپس کرنے کے مطالبے پر قائم ہیں۔ قبل ازیں منگل کو امت شاہ کی زیرقیادت وزراء کے اجلاس کے بعد وزیر زراعت نے اعتماد کا اظہار کیا کہ آج مثبت بات چیت سامنے آئے گی۔
مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ بدھ کے روز کسانوں سے بات چیت کی جائے گی۔ امید ہے کہ حکومت اور کسان کے مابین باہمی روابط مثبت اقدامات کے ساتھ آگے بڑھیں گے مجھے مکمل اعتماد ہے۔
منگل کے روز متحدہ کسان مورچہ نے مرکزی حکومت کو ایک خط لکھ کر تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے اور کچھ مطالبات کیے ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ہم 30 دسمبر کو دوپہر دو بجے بات کرنے کی دعوت قبول کرتے ہیں۔ متحدہ کسان مورچہ کی جانب سے کہا گیا کہ متعلقہ امور کے عقلی حل کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ ہمارا مکالمہ اسی ایجنڈے کے مطابق ہو۔
واضح ہو کہ اب تک حکومت اور کسانوں کے مابین چھ مرتبہ مذاکرات ہو چکے ہیں، لیکن کوئی فیصلہ کن نتیجہ سامنے آنہیں آیا، اب ایک بار پھر فریقین مذاکرات کی میز پر ہیں، ایسی صورتحال میں توقعات برقرار ہیں۔ دوسری طرف کسانوں نے تحریک کو تیز کردیا ہے، نئے سال تک، کسان ایسوسی ایشنز ملک کے مختلف حصوں میں میٹنگیں کریں گی۔
26 دسمبر کو کسانوں نے حکومت کو چار شرائط پر بات چیت کرنے کی تجویز بھیجی جس میں پہلی شرط یہ ہے کہ تینوں زرعی قوانین کو برخاست کرنے کا عمل سب سے پہلے ہونا چاہیے۔ ان کے مطالبات کے ساتھ کسان اب بھی 35 ویں دن دہلی بارڈر پر موجود ہیں۔ اس تحریک میں 40 سے زیادہ کسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جس پر سیاست بھی شدت سے ہورہی ہے۔