اطلاعات کے مطابق عرضی گذار ایم صدیق اور آل انڈیا سنی وقف بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے عدالت میں کہا کہ ’’معزز جج صاحبان، دوسرے فریق سے سوالات نہیں کئے جارہے ہیں۔ تمام سوالات ہم سے ہی کئے جارہے ہیں۔ یقیناً، ہم ان کا جواب دیں گے‘‘۔
راجیو دھون کے ریمارکس کی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے رام للا کے وکیل سی ایس ودیاناتھن نے اسے غیرضروری قرار دیا۔
مقدمہ کی سماعت کا آج 38 واں دن تھا۔
راجیو دھون کے ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب جسٹس ایس اے بوبدے، ڈی وائی چندراچود، اشوک بھوشن اور ایس اے نذیر پر مشتمل بنچ نے متنازعہ جگہ پر لوہے کی ریلنگ کھڑی کرنے پر سوال کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا اس کا مقصد اندرونی اور بیرونی حصہ کو تقسیم کرنا تھا؟۔
عدالت نے دریافت کیا کہ ریلنگ بنانے کا مقصد مسلمانوں اور ہندوؤں کو الگ کرنا تھا؟ جیسا کے محسوس ہوتا ہے کہ ریلنگ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ بیرونی حصہ میں ہندو پوجا کرسکتے ہیں جہاں رام چبوترہ، سیتا رسوئی وغیرہ واقع تھے۔
عدالت نے راجیو دھن کے ان ریمارکس کا بھی نوٹ لیا جس میں انہوں نے کہا کہ صرف ہندوؤں کو متنازعہ جگہ جانے اور پوجا کرنے کا حق حاصل ہے جبکہ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ متنازعہ ملکیت پر ان کا دعویٰ تھا۔
عدالت نے راجیو دھون سے یہ بھی دریافت کیاکہ ’جیسا کہ آپ نے کہا کہ دوسرے فریق کو متنازعہ مقام پر جانے اور پوجا کرنے کی اجازت ہے، کیا اس سے آپ کی ملکیت کا دعویٰ کمزور نہیں ہوتا۔
عدالت نے مزید دریافت کیا کہ ’کیا کسی خاص ملکیت کے مقدمہ میں کسی تیسرے شخص کو متنازعہ مقام پر جانے اور پوجا کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
مسلم فریق نے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے پیر کو دعوی کیا کہ ہندو فریق یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ اہم گنبد ہی بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔
مسلم فریق کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سامنے یہ بات ایودھیا کی متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے سال 2010 کے فیصلے کے خلاف عرضی پر سماعت کے دوران کہی۔
واضح رہے کہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد متنازعہ اراضی معاملے میں ثالثی کا عمل ناکام ہونے کے بعد سپریم کورٹ 6 اگست سے سارے معاملے کی روازنہ کی بنیاد پر سماعت کررہی ہے۔
ڈاکٹر دھون نے کہا کہ ’’ان کی مہم اس بنیاد پر ہے کہ ہندو فریق نے سال 1989 سے قبول کیا تھا کہ انہیں پوجا کرنے کا صرف روایتی حق ہے۔ نیاس من گھڑت ہے اور یہ سماجی اور سیاسی لوگوں کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر دھون نے کہا کہ ہندو صرف بھگوان رام کی ہی نہیں بلکہ ماں درگا کی بھی پوجاکرتے ہیں۔ ہندوستان کے مختلف حصوں میں پوجا کےمختلف طریقہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسجد گرانے اور مندر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ہندو وکیل پی این مشرا نے ڈاکٹر دھون کے دلیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، "کم معلومات کے ساتھ متنازعہ زمین پر ہندوؤں کے دعوے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا قانون بہت ہی پیچیدہ ہے۔ آپ کو اس معاملے کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ "انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر دھون کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کم معلومات ہے۔
اس کے بعد عدالت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا کہ ڈاکٹر دھون کو بے پناہ علم ہے۔ گوگوئی کے اس تبصرہ کے بعد ڈاکٹر دھون نے کہا، "ہمارا یقین اور جذبات ہی عدالت میں راحت پہنچانے اور لڑنے کے لیے باندھے ہوئے ہے۔ زیادہ تر متنازعہ زمین ہماری ہے.
سپریم کورٹ نے اتر پردیش کی حکومت کو اس معاملے سے جڑے سنی وقف بورڈ کے صدر کو مکمل تحفظ فراہم کرانے کی ہدایت دی، جنہوں نے ثالثی شری رام پنچو کے ذریعے عدالت کو اپنی جان کے خطرے کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔
ڈاکٹر دھون کی جرح ابھی نامکمل ہے اور منگل 10:30 بجے سے وہ پھر سے جرح کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس گوگوئی کے علاوہ جسٹس ایس اروند بوبڈے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ڈی وائی چندرچون اور جسٹس عبدالنذیر عدالت کی آئینی بنچ میں شامل ہیں۔
ہندو فریق کے ذریعہ عدالت میں پہلے ہی جرح مکمل کر لی گئی ہے۔ اب مسلم فریق اپنی دلیل پیش کر رہا ہے۔
بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ سے پہلے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کے مقصد سے ضلع انتظامیہ نے ایودھیا میں 10 دسمبر تک 144 سیکشن نافذ کردیا ہے۔
ضلع مجسٹریٹ انوج کمار جھا نے بتایا کہ دیوالی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایودھیا اراضی کیس میں فیصلہ کے پیش نظر امتناعی احکامات نافذ کئے گئے ہیں۔