ماہ محرم سے ہی اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے، سنہ ہجری کا نقطہ آغاز بھی اسی ماہ مبارک سے ہے۔ محرم اسلامی سال نو کا وہ مقدس اور متبرک مہینہ ہے جسے رب کریم نے حرمت عظمت اور امن کا مہینہ قرار دیا ہے۔
اس ماہ مقدس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے 72 جانثاروں کے ساتھ میدان کربلا میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اسلام کی بقا اور دین کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی ایسی مثال پیش کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
ایک وقت ایسا آیا کی یزید جیسا شخص نواسہ رسول امام حسین سے اپنی حکومت کی تائید کے لیے بیعت مانگ رہا تھا۔
آپ کی تربیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ حضرت امام حسین نے ایسے مشکل حالات میں وقت کی نزاکت اور اسلام کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔
آپ نے فرمایا میں نے نہ بغاوت کی نیت سے خروج کیا ہے اور نہ ہی فساد پھیلانے اور نہ ہی ظلم کے لیے بلکہ میرا تو ایک ہی مقصد ہے، وہ یہ کی امت محمدیہ کی اصلاح کروں۔ اپنے نانا کی دین کی عظمت کو برقرار رکھوں اور اسلامی تعلیمات پر اپنے آخری سانس تک قائم و دائم رہوں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سیرت کو زندہ کروں۔
آپ نے میدان عمل میں کتاب اللہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عدل و انصاف کی قدر و قیمت بتائیں اور کربلا کے صبر آزما مراحل کے دوران خدا کے حضور بے انتہا خشوع و خصوع کا مظاہرہ فرما کر پوری دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ کیسے خداوند کریم کے لیے اپنے وجود کو وقف کیا جاتا ہے اور باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہوکر جامِ شہادت نوش کیا جاتا ہے۔
محرم کے اس مہینے میں ”یاد حسین” کے تحت ای ٹی وی بھارت اردو نے ایک پرشکوہ مشاعرے کا اہتمام کیا، جس میں شعراء نے اپنے کلام سے امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کیا۔
مشاعرے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد اعظم نے بحسن و خوبی انجام دی۔
”یاد حسین” مشاعرہ کے پہلے شاعر عظیم اثر نے اپنا کلام پیش کر کے کربلا کے شہیدوں کو کچھ اس انداز میں یاد کیا۔
سرکار دو جہاں کے نواسے حسین ہیں
فاطمہ کے آنکھوں کے تارے حسین ہیں
دنیا میں مستند ہے امامت حسین کی
یعنی کہ دین میں حیات لائے حسین ہیں۔
یاد حسین مشاعرے کے دوسرے شاعر ڈاکٹر نسیم احمد خان نے اپنے انداز میں کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کیا۔
دے کر حسین جان سر میدان کربلا
نظروں میں دونوں جہاں کے ہوئے جا کر کے کربلا
ماتم وہ کرے پیار جنہیں زندگی سے ہو