آپ کی خدمت میں مولانا کی جامع مسجد دہلی میں کی گئی تقریر کا اصل متن پیش کیا جاتا ہے:
میرےعزیزو۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہےجو مجھے یہاں لےآئی ہے۔ میرے لیے شاہجہاں کی اس یادگار مسجد میں یہ پہلا اجتماع نہیں ہے۔ میں نے ایک زمانے میں ، جس پر لیل و نہار کی بہت سی گردشیں بیت چکی ہیں، تمہیں خطاب کیا تھا، جب تمہارے چہروں پر اضمحلال کی بجائےاطمینان تھا اور تمہارے دِلوں میں شک کی بجائےاعتماد۔
آج تمہارےچہروں کا اضطراب اور دِلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھےبےاختیار گذشتہ چند برسوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آجاتی ہیں۔ تمہیں یاد ہے؟ میں نے تمہیں پکارا اور تم نےمیری زبان کاٹ ڈالی لی۔ میں نےقلم اُٹھایا، تم نےمیرےہاتھ قلم کردیے۔ میں نےچلنا چاہا تو تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے۔ میں نےکروٹ لینی چاہی تو تم نےمیری کمر توڑدی۔ حتیّٰ کہ پچھلےسات برسوں کی تلخ نوا سیاست جو تمہیں آج داغِ جدائی دے گئی ہےاُس کےعہدِ شباب میں بھی میں نےتمہیں خطرےکی ہر شاہراہ پر جھنجھوڑا، لیکن تم نےمیری صدا سےنہ صرف اعراض کیا بلکہ غفلت و انکار کی ساری سنّتیں تازہ کردیں۔ نتیجہ معلوم کہ آج اُنھی خطروں نےتمھیں گھیرلیا ہےجن کا اندیشہ تمھیں صراطِ مستقیم سےدور لےگیا تھا۔
سچ پوچھو تو اب میں ایک جمود ہوں یا ایک دُوراُفتادہ صدا، جس نےوطن میں رہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گذاری ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ جو مقام میں نے پہلے دِن اپنے لئے چُن لیا تھا، وہاں میرے بال و پر کاٹ لیےگئےیا میرےآشیانےکےلیےجگہ نہیں رہی۔ بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرےدامن کو تمہاری دست درازیوں سے گِلہ ہے۔ میرا احساس زخمی ہے اور میرےدِل کو صدمہ ہے۔ سوچو تو سہی تم نے کون سی راہ اختیار کی؟ کہاں پہنچےاور اب کہاں کھڑےہو؟ کیا یہ خوف کی زندگی نہیں، اور کیا تمہارے حواس میں اختلال نہیں آگیا۔ یہ خوف تم نے خود فراہم کیا ہے۔
ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا جب میں نے تمہیں کہا تھا کہ دو قوموں کا نظریہ حیاتِ معنوی کےلیےمرض الموت کا درجہ رکھتا ہے۔ اُس کو چھوڑدو، کہ یہ ستون جن پر تم نے بھروسہ کیا ہوا ہے نہایت تیزی سےٹوٹ رہےہیں لیکن تم نےسُنی ان سُنی برابر کردی اور یہ نہ سوچا کہ وقت اور اُسکی رفتار تمہارے لیے اپنے ضابطے تبدیل نہیں کرسکتے۔ وقت کی رَفتار تھمی نہیں۔ تم دیکھ رہےہو کہ جن سہاروں پر تمہارا بھروسہ تھا وہ تمہیں لاوارِث سمجھ کر تقدیر کےحوالے کرگئے ہیں، وہ تقدیر جو تمہاری دماغی لغت میں مشیّت کی منشا سےمختلف مفہوم رکھتی ہے، یعنی تمہارےنزدیک فقدانِ ہمّت کا نام تقدیر ہے۔
انگریز کی بساط تمہاری خواہش کے برخلاف اُلٹ دی گئی اور راہ نمائی کےوہ بت جو تم نے وضع کیے تھے وہ بھی دغا دے گئے، حالانکہ تم نےسمجھا تھا کہ یہ بساط ہمیشہ کےلیےبچھائی گئی ہے، اور انھی بتوں کی پوجا میں تمہاری زندگی ہے۔ میں تمہارے زخموں کو کریدنا نہیں چاہتا اور تمہارے اضطراب میں مزید اِضافہ میری خواہش نہیں، لیکن اگر کچھ دُور ماضی کی طرف پلٹ جاؤ تو تمہارے لیےبہت سی گرہیں کھُل سکتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ میں نےہندوستان کی آزادی کےحصول کا احساس دِلاتے ہوئےتمہیں پکارا تھا، اور کہا تھا کہ جو ہونےوالا ہے اُس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی۔ ہندوستان کی تقدیر میں بھی سیاسی انقلاب لکھا جاچکا ہےاور اس کی غلامانہ زنجیریں بیسویں صدی کی ہوائےحُرِّیت سےکٹ کر گِرنےوالی ہیں۔ اگر تم نے وقت کےپہلو بہ پہلو قدم اُٹھانے سے پہلوتہی کی اور تعطل کی موجودہ زندگی کو اپنا شعار بنائےرکھا تو مستقبل کا مورّخ لکھےگا کہ تمہارے گروہ نےجو سات کروڑ انسانوں کا ایک غول تھا، ملک کی آزادی کےبارےمیں وہ روَیّہ اختیار کیا جو صفحۂ ہستی سےمحو ہوجانے والی قوموں کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ آج ہندوستان آزاد ہے، اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےہو کہ وہ سامنےلال قلعہ کی دیوار پر آزاد ہندوستان کا جھنڈا اپنے پورےشکوہ سےلہرا رہا ہے۔ یہ وہی جھنڈا ہےجس کی اُڑانوں سےحاکمانہ غرور کے دِل آزار قہقہےتمسخر کیا کرتےتھے۔
یہ ٹھیک ہےکہ وقت نےتمہاری خواہشوں کےمطابق انگڑائی نہیں لی، بلکہ اُس نےایک قوم کےپیدائشی حق کےاحترام میں کروٹ بدلی ہے، اور یہی وہ انقلاب ہےجس کی ایک کروٹ نےتمہیں بہت حد تک خوف زدہ کردیا ہے۔ تم خیال کرتےہو کہ تم سےکوئی اچھی شےچھِن گئی ہےاور اُسکی جگہ کوئی بُری شئی آگئی ہے۔ یہ واقعہ نہیں واہمہ ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ بُری شئی چلی گئی اور اچھی شئی آ گئی۔ ہاں تمہاری بےقراری اِس لیے ہےکہ تم نے اپنےتئیں اچھی شئی کےلیےتیار نہیں کیا تھا، اور بُری شئی کو ہی ملجا و ماویٰ سمجھ رکھا تھا۔ میری مراد غیر ملکی غلامی سے ہےجس کے ہاتھ میں تم نےمدّتوں حاکمانہ طمع کا کھلونا بن کر زندگی بسر کی ہے۔ ایک دن تھا جب تم کسی جنگ کےآغاز کی فکر میں تھےاور آج اس جنگ کےانجام سے مضطرِب ہو۔ آخر تمہاری اِس عجلت پر کیا کہوں کہ اِدھر ابھی سفرکی جستجو ختم نہیں ہوئی اور اُدھر گمراہی کا خطرہ بھی درپیش آگیا۔
میرے بھائی، میں نےہمیشہ سیاسیات کو ذاتیات سےالگ رکھنے کی کوشش کی ہےاور کبھی اس پُر خار وادی میں قدم نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہےکہ میری بہت سی باتیں کنایوں کا پہلو لیےہوتی ہیں، لیکن مجھے آج جو کہنا ہےمیں اُسے بے روک ہوکر کہنا چاہتا ہوں۔ متحدہ ہندوستان کا بٹوارہ بنیادی طور پر غلط تھا۔ مذہبی اختلافات کو جس ڈھب سے ہوا دی گئی اُس کا لازمی نتیجہ یہی آثار و مظاہر تھےجو ہم نےاپنی آنکھوں سے دیکھے، اور بدقسمتی سے بعض مقامات پر آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
پچھلے سات برس کی روئیداد دہرانے سےکوئی خاص فائدہ نہیں اور نہ اس سے کوئی اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ البتہ ہندوستان کےمسلمانوں پر مصیبتوں کا جو ریلا آیا ہے، وہ یقیناً 'مُسلم لیگ' کی غلط قیادت کی فاش غلطیوں کا بدیہی نتیجہ ہے۔ یہ سب کچھ مُسلم لیگ کےلیےموجبِ حیرت ہوسکتا ہےلیکن میرے لیےاس میں کوئی نئی بات نہیں۔ میں پہلے دن ہی سے اِن نتائج پر نظر رکھتا تھا۔