اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

سی اے اے پر ممتاز مفکرین اور دانشوران کا ممبئی میں اجلاس

ہندوستان جو کہ ایشیاء میں ترقی میں اپنا ایک علیحدہ مقام بناچکا ہے اور مستقبل میں ایک سُپر پاور بننے کی حیثیت رکھتا ہے ،فی الحال بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔

سی اے اے پر ممتاز مفکرین اور دانشوران کا ممبئی میں اجلاس
سی اے اے پر ممتاز مفکرین اور دانشوران کا ممبئی میں اجلاس

By

Published : Feb 9, 2020, 7:44 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 7:04 PM IST

اس کی سب سے بڑی وجہ برسر اقتدار حکومت کی تقسیم کرنے والی پالیسی ہے۔ اس کا مقصد ملک کو درپیش اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ملک کے دانشوروں اور مفکرین نے آج یہاں ملک کی صورتحال پر منعقدہ ایک سمینار میں کیا۔

انہوں نے جنوبی ممبئی کے حج ہاؤس میں منعقد کیے گئے اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے منصوبہ بندی سے ملک میں سی اے اے این آر سی کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جاسکے۔

ان ماہرین ، دانشوروں ، رائے عامہ سازوں اور اسکالرز نے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ اصل مسائل در پردہ چلے گئے ہیں ،یہ افسوس ناک پہلو بھی ہے کہ فرقہ پرستی بڑھ گئی ہے اور ذات پات کی غلطیاں واضح طور پر بھی عیاں ہیں ،جبکہ خواتین کے خلاف جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے اور امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے اور یہ سب جان بوجھ کرکیا جارہا ہے۔تاکہ اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جائے۔

سی اے اے پر ممتاز مفکرین اور دانشوران کا ممبئی میں اجلاس

مذکورہ اجلاس کا انعقاد میں دانشور اور مفکرین پر مشتمل پیٹراٹک انٹلیکچول آف انڈیا اور اردو مرکز کے تعاون سے کیا گیا ،جس کا عنوان ہندوستان کو درپیش اصل مسائل اور معاملات اورباضمیر شہریوں کی ذمہ داری منتخب کیا گیا تھا اور ملک کو درپیش اصل مسائل پر اظہار خیال کرناتھا ۔

مذاکرہ میں ممتاز صحافی فائی ڈی سوزا ، وائس چانسلر اور آئین کے ماہر فیضان مصطفی ماہر تعلیم فادر فریزر مسکرنہاس ، معروف اسکالر رام پنیانی اور مشہور اداکار اور ٹی وی اینکر سشانت سنگھ شرکت کی اور خطاب کیا۔

ہندوستان حالیہ تاریخ میں کثیر معاشرے کے لیے ایک مثال ہے ،یہ انسانی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے اور روحانی افکار کا ہمشیہ رہنما رہا ہے۔ ہم سب نے ایک بار ایک منفرد آئین کو برقرار رکھنے کا عہد کیا تھا۔حالانکہ آزادی کے موقع پر برصغیر کے حالات کافی خستہ ہوگئےتھے ،لیکن ہندوستان نے اپنے آئین میں ایک منفرد آئین کو برقراررکھا اور قومی ہم آہنگی اور تنوع کوفوقیت دی گئی۔

اس موقع پر مقررین نے اس بات کا اظہار کیا کہ معیشت ، غربت ، کسانوں کی خودکشی ، بے روزگاری ، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ، بدعنوانی ، معاشرتی تدارک کی خرابی ، خواتین کی حفاظت ، تغذیہ ،بھکمری، تعلیم جیسے مسائل سیاسی بحث میں نہیں آتے ہیں ،جوکہ ایک تشویش ناک امر ہے۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر پنیانی نے کہا کہ جب بی جے پی ہمیں یہ بتارہی تھی کہ مسلم خواتین کا بنیادی مسئلہ طلاق ثلاثہ ہے اور اس کے خلاف ایک قانون بھی بنایا گیا جبکہ آج مسلم خواتین کی زیرقیادت جاری تحریکوں نے واضح کردیا ہے کہ مسلم فرق کو تین طلاق سے نہیں بلکہ دیگر کئی امورسے بہت زیادہ خطرہ ہے اور یہی ان کا بنیادی مسئلہ بھی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے مدنظر دوسرے تمام فرقے بلا مذہب وملت جو کہ خط افلاس کے نیچے زندگی گزاررہے ہیں بے زمین شہری اوربے گھر لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو اگر چند کاغذات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یعنی مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ، تو وہ بھی اس کاشکار ہونے کے عمل میں زیادہ پیچھے نہیں رہیں گے اور ان سے زیادہ حکومت کی اس مہم میں شکار بن جائیں گے۔

اس حکومت کے ذریعہ سی اے اے این آر سی لانے کا مقصد دیگر امور کو پیش پست ڈالنا ہے۔ رام پنیانی کے مطابق مودی حکومت نے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کیا اور اسے پورا کرنے میں ناکامی سے شروع ہونے والی مودی حکومت کی پالیسیاں ، خطرناک عنصر کی حیثیت نظرآئی ہیں ،پہلے نوٹ بندی کی گئی اور پھراس کا ظالمانہ اثربھی نظرآیا جبکہ روزمرہ کی اشیا ءکی قیمتوں میں زبردست اضافہ ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو چھپانے کے لیے ایک سازش کے طورپر ارباب اقتدارکے ذریعہ تفرقہ ڈالنے کی سنگین پالیسی کو بنیادبنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ اس کی بنیاد پر یہ احتجاجی تحریکیں کھڑی ہوئی ہیں۔ پورے ہندوستان میں احتجاجی تحریک کا پھیلاو حالانکہ بے ساختہ ہے، لیکن اسی طرح کا پیغام دینا قابل ذکر ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہین باغ اب محض ایک ظاہری جگہ نہیں ہے ، بلکہ حکومت کی پھوٹ ڈالواور تقسیم و تفرقہ کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا ، تفرقہ انگیز پالیسیاں ، ان پالیسیوں کے خلاف جو غریب مزدوروں ، کسانوں اور معاشرے کے متوسط طبقے کے مصائب میں اضافہ کررہی ہیں۔

ان کے بقول ، جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ شناخت کا مسئلہ ، رام مندر ، بیف ، لو جہاد اور گھر واپسی جیسے جذباتی مسائل کا مقصد معاشرے کو تقسیم کرنا ہی ہے ، جبکہ بے روزگاری ، زرعی بحران ، امن و امان ، تفرقہ انگیز سیاست ، خواتین کی حفاظت جیسے اصلی مسائل ایسے معاشرے کو متحد کررہے ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں کیے گئے۔

ہندوستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد حکومت کی اس تفریق کے خلاف اظہار یکجہتی کررہے ہیں کہ وہ لوگوں کو اس کی تفرقہ بازی کی سیاست کی طرف راغب کرنا ہے تاکہ ان کی توجہ کو مزید پریشان کن امور سے ہٹایا جاسکے۔

ایک قابل فخر خودمختار سیکولر جمہوریہ کی حیثیت سے ہندوستان کا مستقبل ہم پر منحصر ہے کہ ہم حکومت کے ساتھ اصل معاملات کو حل کریں، لیکن دہلی کے انتخابات نے یہ واضح کیا ہے کہ بی جے پی انتخابی فائدے کے لئے متنازعہ اور فضول امور کواٹھایا ،جسے مسترد کرنا چاہئیے ۔اور شاید دہلی کے رائے دہندگان نے ایسا کربھی دیا ہے۔

Last Updated : Feb 29, 2020, 7:04 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details