حیدرآباد میں مولانا نے اپنے پریس ریلیز بیان میں کہا کہ 'متعصب میڈیا، تبلیغی جماعت کے مرکز کے اجتماع کو جو رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے وہ عقل سے بعید ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'کورونا وائرس کے پھیلنے کی نوعیت کے اعتبار سے کسی قسم کے اجتماع سے گریز احتیاط کا تقاضہ ہے اور اگر کہیں کچھ لوگ جمع ہوتے ہوں تو اسے بے احتیاطی یا لاپروائی تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن اسے سازش قرار دینا اور مزید جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے القاعدہ اور جہاد سے جوڑنا اور اس طرح جمع ہونے والوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دینے کا مطالبہ کرنا ذہنی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے انسانیت کے لیے کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ وائرس تو کچھ عرصہ بعد ختم ہو جائے گا لیکن یہ ذہنیت فتنہ پروری کے ذریعہ مسلسل انسانیت کو شرمندہ کرتی رہے گی۔'
مولانا نصیر الدین نے کہا کہ 'اگر سازش اور کورونا جہاد کا نعرہ لگانے والے یہ بتاتے کہ مرکز سے نکلنے والے لوگ مخالف طبقہ یا عام بازاروں میں پھر رہے ہیں تو پھر بھی بائیلوجیکل ہتھیار کی دور کی کوڑی لائی جا سکتی تھی لیکن وہ سب لوگ اپنے خاندانوں میں واپس لوٹے۔ بیوی، بچوں، والدین اور بہن بھائیوں کے پاس اور اپنی ہی قوم کے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے والوں کے بارے میں وائرس پھیلانے کی سازش کا الزام محض ماحول کو بگاڑنے، موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ پرستی کی آنچ پر اپنی روٹیاں سینکنے کے سواء کچھ نہیں ہے۔'