بھارت کے نئے نقشے کے سلسلے میں نیپال میں جاری مظاہرے کے درمیان وزیراعظم کے پی شرما اولی نے بتایا کہ ان کی حکومت اپنے ملک کی ایک انچ زمین کسی کو نہیں لینے دے گی۔
نیپال کے مظاہروں میں اضافے کے دوران وزیراعظم کے پی اولی نے اتوار کے روز کہا ہے کہ کالا پانی نیپال، بھارت اور تبت کے مابین ایک سہہ فریقی مسئلہ ہے اور بھارت کو فوری طور پر وہاں سے اپنی فوج ہٹالینی چاہیے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم کے پی اولی نے کہا کہ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے، یہ پہلا موقع ہے جب نیپال کے وزیراعظم نے بھارت کے نئے سرکاری نقشے سے پیدا ہونے والے تنازعے پر عوامی طور پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
بھارت نے جموں وکشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام ریاست بنانے کے بعد چھ نومبر کو نیا نقشہ جاری کیا گیا تھا، اور اس نقشے میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے گلگت، بلتستان اور کچھ نئے حصوں کو بھی شامل کیا گیا تھا خیال رہے کہ بھارت نے نئے نقشے میں کالا پانی کو اپنے علاقے کے طور پر پیش کیا ہے، جبکہ کالا پانی نیپال کے مغربی سرے پر واقع ہے۔
وزیراعظم کے پی اولی کے بیان پر فوری طور پر بھارت سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ نیپال کی سرحد پر بھارت کے نئے نقشے میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے۔
کے پی اولی نے اتوار کے روز نیپال کی کمیونسٹ پارٹی کے نیپال یوتھ ونگ 'نیپال یوا سنگم' سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ 'ہم اپنی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں رہنے دیں گے، بھارت یہاں سے فوری طور پر اپنی فوج وہاں سے ہٹالے'۔
تاہم نیپالی وزیراعظم نے نیپال کی جانب سے ایک ترمیم شدہ نقشہ جاری کرنے کے مشورے کو مسترد کردیا۔
وزیراعظم اولی نے کہا کہ 'اگر بھارت ہماری سرزمین سے فوج واپس لے لے گا تو ہم اس کے بارے میں بات کریں گے'۔
انہوں نے کہا کہ کالاپانی نیپال، بھارت اور تبت کے درمیان ایک جگہ ہے اور یہاں سے بھارت کو اپنی فوج کو ہٹالینا چاہیے۔
نیپالی کانگریس کے ترجمان وشو پرکاش شرما نے ٹوئٹر پر لکھا کہ پارٹی کے سربراہ شیر بہادر دیوبا نے آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ نیپالی سرزمین پر بھارتی فوجی ہیں انھیں وہاں سے جانے کے لیے کہا جائے مسٹر اولی نے بھارت کے نئے نقشے پر پہلی مرتبہ عوامی طور سے بیان دیا ہے۔
نیپالی وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت ملک کی سرحد کی دفاع کرنے کی اہل ہے۔
ملک کی سلامتی فورس اپنی زمین پر قبضہ ختم کرنے کے لیے متحد ہے اور انہوں نے یکجہتی کا پیغام دیا ہے۔
وزارت نے چھ نومبر کو ایک پریس ریلیز جاری کرکےکہا تھا کہ کالا پانی نیپال کا حصہ ہے۔
مسٹر اولی نے کہا کہ نیپال ایک پرامن ملک ہے اور وہ کسی بھی ملک کی زمین پر قبضہ نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کو اپنی زمین پر قبضہ کرنے دے گا۔
انہوں نے کہا کہ 'کچھ لوگ نقشے کو صحیح کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، لیکن زمین واپس لینے کا معاملہ زیادہ اہم ہے، یہ نقشے کا مسئلہ نہیں ہے، معاملہ اپنی زمین واپس لینے کا ہے'۔
واضح رہے کہ بھارت نے جموں وکشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام ریاست بنانے کے بعد چھ نومبر کو نیا نقشہ جاری کیا گیا تھا، اور اس نقشے میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے گلگت، بلتستان اور کچھ نئے حصوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
نیپالی کانگریس کے ترجمان وشو پرکاش شرما نے ٹوئٹر پر لکھا کہ پارٹی کے سربراہ شیر بہادر دیوبا نے آل پارٹی میٹنگ میں کہا ہے کہ نیپالی سرزمین پر بھارتی فوجی ہیں انھیں وہاں سے جانے کے لیے کہا جائے۔
سماج وادی پارٹی نیپال کے رہنما اور سابق وزیراعظم بابو رام بھٹّارئی نے یہ بھی کہا تھا کہ وزیراعظم اولی وزیراعظم نریندر مودی سے کالا پانی کے علاقے کے بارے میں بات کریں۔
سماج وادی پارٹی نیپال کے رہنما اور سابق وزیراعظم بابو رام بھٹّارئی نے یہ بھی کہا تھا کہ وزیراعظم اولی وزیراعظم نریندر مودی سے کالا پانی کے علاقے کے بارے میں بات کریں بھارت نے نئے نقشے میں کالاپانی کو اپنا حصہ بتایا ہے، وہیں نیپالی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ نیپال کا حصہ ہے، جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ نیپال سے ملحق سرحد پر بھارت کے نئے نقشے میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ کالاپانی بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے پتھوڑا گڑھ ضلع میں 35 مربع کلومیٹر اراضی پر محیط علاقہ ہے۔ یہاں 'انڈو تبت' سرحدی پولیس کے اہلکار تعینات ہیں۔
یاد رہے کہ یہ سرحد نیپال سے 80.5 کلومیٹر اور چین سے 344 کلومیٹر تک ملتی ہے، دریائے کالی کی ابتدا بھی کالاپانی ہے، بھارت نے اس دریا کو بھی نئے نقشہ میں شامل کیا ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 1816 میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال کے مابین سگولی معاہدہ ہوا تھا۔ اس وقت دریائے کالی کی مغربی سرحد پر مشرقی بھارت اور نیپال کے مابین نشاندہی کی گئی تھی، جبکہ سنہ 1962 میں انڈیا اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تو بھارتی فوج نے کالا پانی میں ایک چوکی تعمیر کی تھی۔
نیپال کا دعویٰ تھا کہ سنہ 1961 میں بھارت چین جنگ سے پہلے نیپال نے مردم شماری کروائی تھی، اور بھارت نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، جبکہ نیپال کا کہنا ہے کہ کالاپانی میں بھارت کی موجودگی سگولی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔