اس مظاہرے میں پولیس اور مظاہرین کے مابین شدید تصادم کے واقعات پیش آئے جس کے سبب سرکاری املاک کو نقصان بھی پہنچا تھا۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اس پر امن مظاہرے نے شام ڈھلتے ڈھلتے کب تشدد کی شکل اختیار کر لی پتہ ہی نہیں چل سکا اور پھر بعد میں بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کے واقعات سامنے آئے۔
سرکاری املاک کو کروڑوں کا نقصان ہوا، جس کے بعد ضلع انتظامیہ اور لکھنؤ پولیس نے ایسے لوگوں کی تصدیق کرکے انہیں نوٹس بھیجا تھا۔
اسی سلسلہ میں دوبارہ گزشتہ رات دارالحکومت لکھنؤ کے کئی علاقوں کے ساتھ ہی حضرت گنج کے اٹل چوک میں 57 لوگوں کی تصاویر بڑے بڑے ہورڈنگ میں شائع کی گئی۔
ضلع انتظامیہ کے اس کارروائی کی مسلم دانشوران نے شدید الفاظ میں مذمت کی لکھنؤ کے شہر قاضی مولانا خالد رشید فرنگی نے کہا کہ یہ انسانی ضابطے کے خلاف ہے کیونکہ شہر بھر میں اس طرح کے ہورڈنگس لگانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ شہر میں جو دنگا فساد ہوا تھا، اس کی سبھی نے مذمت کی تھی اور یہ معاملہ کورٹ میں زیر سماعت ہے ایسے میں ہورڈنگ لگانا کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے۔
شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سيف عباس کی بھی تصویر لگائی گئی ہے، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ' ہم نے ضلع انتظامیہ کی احتجاج کے دوران ہر ممکن مدد کی لیکن انہوں نے نوٹس بھیج کر بہت ہی غلط کام کیا، ہمیں افسوس ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ کس کے اشارے پر کام ہو رہا ہے بالکل واضح ہے۔ ہمارے پاس کوئی خبر ضلع انتظامیہ نے نہیں بھیجی تھی، ہورڈنگ کی بات دوسرے لوگوں کے ذریعے ہمیں معلوم ہوئی۔ ہم آخری دم تک اس لڑائی کو جاری رکھیں گے۔ ہمیں کورٹ سے انصاف کی پوری امید ہے'۔