علامہ شبلی نعمانی ایک باکمال شخصیت کے مالک تھے۔ علامہ شبلی نے تاریخ اور فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو بھی مزیدار اور دلچسپ بناتے ہوئے اپنی فنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کی چند مشہور تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں:
شعرالعجم (5 جلدیں)
موازنہ انیس و دبیر
الفاروق
المامون
سیرت النعمان
الغزالی
سوانح مولانا روم
علم الکلام
الکلام
الجزیہ
فلسفہ اسلام
سفر نامہ روم و شام و مصر
حیات خسرو
سیرت النبیؐ
دیوان شبلی وغیرہ۔
علامہ شبلیؔ اپنی ذات میں ایک مکمل ادبی انجمن تھے۔ انہوں نے 57 برس کی عمر میں تن تنہا ہی ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کے ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سلطان ترکی نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں 'تمغہ مجیدی' کے پروقار اعزاز سے نوازا۔
حکومت برطانیہ نے انہیں 'شمس العلماء'کے خطاب سے سرفراز کیا ۔
جنگ بلقان میں جب ترکوں پر مصیبت آپڑی تو مولانا شبلی کے اندر کا انقلابی شاعر جاگ اٹھا اور انہوں نے ایک مرصع نظم لکھی جو بے حد مشہور ہوئی۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک
چراغ تشنہ محفل سے اٹھے گا دھواں کب تک
یہ جوش انگیزی طوفان بیداد و بلانا کے
یہ لطف اندوزی ہنگامہ آہ و فغاں کب تک
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانا ہے
ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک
کہاں تک لوگے ہم سے انتقام فتح ایوبی
دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب
علامہ شبلیؔ ہرفن مولیٰ تھے انہوں نے اردو ادب کے تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور اپنے مشاہدے اور تجربے کی مدد سے ادب عالیہ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی تصانیف کی طرح ان کے مقالات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔