اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

آؤ ایک ساتھ ایک سبز بھارت کا عہد کریں

کاربن اخراج کی وجہ سے ہونے والی فضائی آلودگی کے خطرے سے دوچار ممالک کی فہرست میں بھارت تیسرے نمبر پر ہے اور اس حقیقت سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال کس حد تک مایوس کن ہے۔آلودگی کی وجہ سے سالانہ ہونے والا نقصان مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)کے 5.4فیصد کے برابر ہے

آؤ ایک ساتھ ایک سبز بھارت کا عہد کریں
آؤ ایک ساتھ ایک سبز بھارت کا عہد کریں

By

Published : Feb 24, 2020, 4:35 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 10:03 AM IST

چونکہ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات دنیا پر غالب ہے، ماحولیات کے تحفظ کیلئے فوری بنیادوں پر اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہے۔ماحولیاتی بحران کئی ملکوں کی معیشت کو تتر بتر کررہا ہے، جبکہ بھارت عہد نامہ پیرس کے نفاذ کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس تناظر میں بھارت نے سال 2020کے مرکزی بجٹ میں ماحولیات کے بچاؤ کیلئے 4 ہزار 400 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اُن شہروں میں جہاں بہت آلودگی ہے بجٹ کی توجہ ہوائی آلودگی کو روکنے اور خراب ہورہی ہوا کے معیار کو بہتر بنانے پر ہے۔شمالی اور جنوبی ریاستوں میں ہوا کے معیار کا پیمانہ دیکھئے تو پتہ چلتا ہے کہ فضائی آلودگی کتنی شدید ہے۔

سردیوں میں توفضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ دھند کی وجہ سے بھارتی شہروں کا دم گھٹتا ہے ۔ اس صورتحال کے تناظر میں مرکزی سرکار ایک جامع حکمتِ عملی کے تحت فضائی آلودگی کو روکنے اور لوگوں کو معیاری ہوا دستیاب کرانے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے ماحولیاتی تحفظ کے تئیں ایک اہم اقدام کے بطور دیکھا جاسکتا ہے۔اس مقصد کیلئے یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ مرکزی سرکار ہوائی معیار کے پیمانے متعارف کرانے کے اقدامات کر رہی ہے۔

حکومت نے یہ ذمہ داری وزارتِ ماحولیات و جنگلات و تبدیلی آب و ہوا کو دی ہوئی ہے۔حالیہ بجٹ میں اس وزارت کیلئے، انسدادِ آلودگی کے اقدامات متعارف کرانے کیلئے،خصوصی طور پر 460کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

یہ رقم 'نیشنل کلین ائیر پروگرام' کے تحت کی جانے والی سرگرمیوں کیلئے خرچ کی جائے گی ۔

ملک میں جنگلوں کا احاطہ، شہروں کے تیزپھیلاؤ، صنعت کاری اور ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں بھڑکنے والی آگ سےکم ہوتا جارہا ہے لہٰذا مرکزی سرکار نے 'نیشنل گرین مشن' کیلئے 311کروڑ روپے کی رقم منظور کی ہے جسکے ایک حصہ کے بطور 246کروڑ روپے ملک بھر میں جنگلوں کی ترقی کیلئے رکھے گئے ہیں۔جنگلوں میں بھیانک آگ کے بچاؤ اور بھڑکنے کی صورت میں اسے قابو کرنے کیلئے الگ سے 50کروڑ روپے کی رقم مختص کی جاچکی ہے۔

'گرین پیس ساؤتھ ایشیا' کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق بھارت میں ہر سال فقط فضائی آلودگی سے 10لاکھ جانیں ضائع ہوتی ہیں۔اطلاع کے مطابق ملک میں ہر آٹھ اموات میں سے ایک فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوئی ہوتی ہے۔اسی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ماحول پر 'فوسِل فیول' کے اثرات کی وجہ سے بھارت میں ہر سال 9.80لاکھ بچے قبل از وقت یا پری میچور بچے پیدا ہوتے ہیں۔

کاربن اخراج کی وجہ سے ہونے والی فضائی آلودگی کے خطرے سے دوچار ممالک کی فہرست میں بھارت تیسرے نمبر پر ہے اور اس حقیقت سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال کس حد تک مایوس کن ہے۔آلودگی کی وجہ سے سالانہ ہونے والا نقصان مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی)کے 5.4فیصد کے برابر ہے۔

موجودہ اور سابق حکومتوں کی پالیسیوں کو زیرِ غور لانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی بحران جیسی چیزیں قلیل ترین اہمیت پاتی رہی ہیں اور ان چیزوں کو اچھی طرح نہیں سمجھا جاتا رہا ہے۔تجارتی،کاروباری اور سیاسی تنظیموں کی ان اہم مسائل کی جانب توجہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ایک تنقید یہ بھی ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کی خاطر قلیل بجٹ رکھا جانا بھی ماحولیات کے حوالے سے منفی صورتحال کی ایک وجہ ہے۔

فی الوقت بھارت میں صورتحال یہ ہے کہ ماحولیات کی تبدیلی آبادی کے کئی طبقوں کو شدت کے ساتھ متاثر کررہی ہے جسکا ثبوت آسمانی بجلی کا گرنا، سیلاب، قحط سالی، موسم کی بے ضابطگی اوردرجہ حرارت میں غیر معمولی چڑھائی وغیرہ ہے۔پائیداری حاصل کرنے اور لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر قابو کرنا لازمی بن جاتا ہے۔

یکم جنوری 2021تک گلوبل وارمنگ کو قابو کرنے کے اقدامات کرنے کی نیت سے بھارت سرکار بڑی حکمتِ عملی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدہ کو لیکر پیشرفت کر رہی ہے اور اسی کے ایک حصہ کے بطور مرکزی حکومت نے موجودہ کاربن ضوابط کے ساتھ ہم آہنگی نہ رکھنے والے تھرمل بجلی گھروں کو بند کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ زراعت کے میدان میں فوسِل فیول کی بجائے توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے ملکی سطح پر وزیرِ اعظم کُسم یوجنا شروع کی جارہی ہے، جو آبادی کے70فیصد کو روزگار مہیا کرتا ہے۔

ملک بھر کے کھیتوں میں شمسی توانائی سے چلنے والے 35لاکھ پمپ سیٹ لگانے کا ایک خوش آئند قدم بھی اٹھ رہا ہے۔تاہم اگر بنجر اور غیر استعمال شدہ زمینوں میں شمسی بجلی گھر لگاکر یہاں پیدا ہونے والی بجلی کو عام بجلی گھروں کی پیداوار کے ساتھ جوڑنے کیلئے کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کاربن کے اخراج کوایک حد تک قابو کیا جاسکتا ہے۔

روزافزوں بڑھتے جارہی فضائی آلودگی کو ختم کرنے کیلئے نیتی آیوگ کے منصوبے کو فوری طور روبہ عمل لایا جانا چاہیئے۔یہ بات بڑی پریشان کرنے والی ہے کہ بھارت ہوا کے معیار کیلئے جانچے گئے180ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے ہے۔

ایک اور بین الاقوامی تحقیق کے مطابق دنیا کے 20آلودہ ترین شہروں میں سے 15بھارتی شہر شامل ہیں۔گاڑیوں اور صنعتوں سے خارج ہونے والے دھویں کی وجہ سے دمہ کی تکلیف(استھما)اور پھیپھڑوں کی دیگر بیماریاں پھیل رہی ہیں۔3.5لاکھ بچے تو سالانہ استھما کا شکار ہوتے ہی ہیں بالغوں میں بھی پھیپھڑوں کا کینسر اور فالج جیسی بیماریاں بڑھتی ہی جارہی ہیں اور ماہرین کے مطابق اس طرح کے خطرات کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔

گزری نصف صدی سے بڑھتی جارہی گلوبل وارمنگ نے ملکوں کے مابین عدم مساوات کو فروغ دیا ہے۔چونکہ امیر ممالک مزید خوشحال ہیں جبکہ غریب اور ترقی پذیر ممالک اور بھی زیادہ غریب ہوتے آرہے ہیں۔

کاربن کا اخراج، فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی دنیا کو ایک ماحولیاتی بحران کی جانب دھکیل رہی ہیں۔ممالک کے باالترتیب 5 ہزار 349 اور 32 فیصد رہائشی علاقوں کے فضائی آلودگی کی وجہ سے نا قابلِ رہائش ہونے پر برطانیہ، نیوزی لینڈ اور کنیڈا نے موسمیاتی ایمرجنسی(کلائمیٹ ایمرجنسی)کا اعلان کیا ہوا ہے۔

دنیا کو ان تین ممالک سے سیکھتے ہوئے فضائی آلودگی کا پتہ لگانے اور کاربن کے اخراج کی روک تھام کرنے کے اقدامات کرنے چاہیے۔ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں فوسِل فیول کے استعمال کو کم کرنے کیلئے بجلی اور شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کیلئے مراعات اور سبسڈیاں دی جانی چاہیئں۔

دنیا بھر کے ماہرین شنگھائی، برلن، لندن، پیرس، میڈرڈ اور سیول جیسے بھاری آبادی والے شہروں میں ایک اعلیٰ عوام ٹرانسپورٹ نظام قائم کئے جانے کی تعریفیں کر رہے ہیں کیونکہ اس سے فضائی آلودگی کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔بھارت کو ان ممالک کی تقلید کرنی چاہیئے اورجنگلوں کے بچاؤ کی تدابیر کیے جانے کی ضرورت ہے، و تیزی کے ساتھ سکڑتے جارہے ہیں۔ تاہم ایسا کرنے کیلئے شہریوں کا ماحولیات کے حوالے سے باخبر ہونا بھی لازمی ہے۔

ہر شہری لازمی طور پر ماحولیات کو بچانے کیلئے اپنے حصے کی محنت کرنی چاہیئے کیونکہ اگر کاربن کے اخراج کو قابو نہیں کیا گیا تو زندہ رہنے والی چیزوں کے پانچویں حصہ نابود ہونے کے خطرے سے دوچار ہوجائیں گے۔

کئی ماہرین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہونہ ہو ہم زمین پر رہنے والی آخری پیڑی ہوں لہٰذا آبادی کو زمین پر سے نابود ہونے کے خطرات کو ٹالنے کیلئے قدرت اور ماحولیات کا تحفظ مساوی طور سرکار اور عوام کی ترجیح ہونا چاہیئے۔اس طرح کے اقدامات کے طفیل ہی ابھی کے آلودہ بھارت کو ایک سرسبز بھارت میں بدلنے کے خواب کو سچ کیا جاسکتا ہے۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 10:03 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details