عالمی شہرت یافتہ رامپور رضا لائبریری میں مولانا امتیاز علی عرشی میموریل لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ وہیں اردو دنیا کے ممتاز شاعر و ادیب مرزا اسعد اللہ خاں غالب کی خدمات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ پروگرام کا آغاز نوید قیصر شاہ کی نعت پاک سے ہوا۔
اس موقع پر تمام مہمانوں کے اعزاز میں یادگاری نشانات پیش کئے گئے۔ 'غالب کا ہے انداز بیاں اور' کے عنوان سے منعقدہ اس لیکچر میں کنیڈا میں مقیم معروف اردو اسکالر ڈاکٹر تقی عابدی نے تفصیل سے مرزا غالب کی تخلیق پر روشنی ڈالی۔
رامپور میں غالب شناسی پر لیکچر کا اہتمام رامپور رضا لائبریری کے پہلے ڈائریکٹر مولانا امتیاز علی خاں عرشی کے تحقیقی کاموں کی بھی کافی ستائش کی گئی۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اس رامپور رضا لائبریری میں غالب شناسی پر کافی ذخیرہ موجود ہے۔ جس سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے اس بات پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غالب پر ہندوستان میں جس طرح کام ہونا چاہئے تھا ابھی یہاں ایسا کم ہی نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غالب ابھی بھی خواص تک ہی محدود ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ غالب کو اب یونیورسٹی اور تعلیم گاہوں سے نکال کر عوام کے درمیان لانا چاہئے۔ ڈاکٹر عابدی نے اپنے خطبہ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غالب کو عوام کے درمیان متعارف کرانے کے لئے ابھی ہمارے پاس نہ تو ان کے نام پر کوئی یونیورسٹی ہے، نہ کوئی شاہراہ اور نہ ہی کوئی دیگر مقام ہے۔
اس موقع پر صائمہ ذوالنور کی تصنیف کردہ کتاب ساخِ گل کا رسم اجراء بھی عمل میں آیا۔ اس کتاب کے متعلق بتاتے ہوئے صائمہ ذوالنور نے کہا کہ یہ کتاب سماجی برائیوں کی اصلاح کی غرض سے تصنیف کی گئی ہے۔
اس خصوصی پروگرام کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر ابو سعد اصلاحی نے انجام دیا۔ یاد رہے کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب 27 دسمبر 1798ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی شعر و سخن کا شوق تھا۔ جب وہ مولوی معظم کے مکتب میں زیر تعلیم تھے اسی زمانے میں ان کی مشق سخن کا آغاز ہو گیا تھا۔
غالب کے خطوط سے آپ نے اس بات کا بھی اندازہ لگایا ہوگا کہ ان کو رامپور اور رامپور والوں سے بہت لگاؤ تھا۔ اسی لئے انہوں نے ایک لمبے عرسے تک یہاں پر بھی قیام کیا۔ یہاں کا شعر و سخن کا ماحول، ادب شناسی اور خود غالب جس گھر میں قیام پزیر ہوئے، وہ تمام غالب کی رامپور دوستی کی گواہی دیتے ہیں۔