بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے خلاف مگ-27 اور مگ-29 کا بھی استعمال کیا اور پاکستان کے قبضے والے علاقے میں جم کر بم برسائے۔
اس جنگ میں بھارتی فوج کی بہادری اور جاں بازی قابل تعریف تھی۔ آج ہر بھارتی کو اپنی فوج کی بہادری اور جاں بازی پر فحر ہے۔
جس اونچائی پر کارگل کی جنگ لڑی گئی وہاں پر خون جما دینے والی سردی تھی، لیکن بھارتی فوج کا عزم اور حوصلہ ناقابل شکست تھا۔
کارگل کی اونچائی تقریباً 18 ہزار فٹ تھی۔ اس لڑائی میں بھارت نے اپنے پانچ سو سے زائد بہادر نوجوانوں کو قربان کیا اور بڑی تعداد میں ہمارے نوجوان زخمی بھی ہوئے۔
بھارت نے اس لڑائی میں ڈھائی لاکھ سے زائد گولے داغے، پانچ ہزار سے زائد بم فائر کئے۔ مورٹار، تو پوں اور راکٹس کا بھی استعمال کیا گیا۔
کرگل جنگ میں بڑی تعداد میں راکٹ اور بموں کا استعمال کیا گیا۔ لڑائی کے دوران ڈھائی لاکھ گولے داغے گئے، 5000 سے زیادہ بم فائر کرنے کے لیے 300 سے زیادہ مورٹار، توپوں اور راکٹوں کا استعمال کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کارگل جنگ ہی ایسی جنگ تھی، جس میں دشمن ملک کی فوج پر اتنی بڑی تعداد میں بمباری کی گئی تھی۔
پاکستان نے اس جنگ میں بربریت کی تھی۔ سنہ 1999 میں کارگل جنگ میں پاکستانی فوج کی بربریت سامنے آئی تھی۔
کیپٹن سوربھ کالیا ان پانچ دیگر فوجیوں میں شامل تھے، جنہوں نے پاکستانی بربریت کا سامنا کیا تھا۔کیپٹن سوربھ کالیا اس فوجی کا نام ہے جسے کارگل جنگ کا پہلا شہید تسلیم کیا جاتا ہے۔
کیپٹن وکرم بترا نے کارگل کی جنگ میں ملک کے لئے اپنی زندگی کی سب سے بڑی قربانی دی۔ کیپٹن وکرم بترا کو فوج کے اعلی ترین اعزاز پرمویر چکر سے نوازا گیا۔
ان جانباز بہادروں کے علاوہ بھارت کے بہت سے جاں باز بہادروں نے اپنے خون کی فکر نہ کرتے ہوئے ملک کی خاطر اپنی جان دے دی۔ آج پورا بھارت ان جاں باز بہادروں کی بہادری پر سلام کررہا ہے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔