اردو

urdu

By

Published : Jun 1, 2020, 2:10 PM IST

ETV Bharat / bharat

پاکستان: دوسو برس پرانا مندر مسلم نوجوانوں کا ذریعہ معاش

پاکستان کے شہر کراچی میں ہندو مذہبی عبادت گاہ 200 برس پرانا شری لکشمی نارائن مندر مسلم نوجوانوں کے لئے معاش کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔

karachi's 200-year-old hindu temple, livelihood source for muslim youths
پاکستان: دوسو برس پرانا مندر مسلم نوجوانوں کا ذریعہ معاش

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک 200 برس پرانا مندر نہ صرف ملک میں اقلیت ہندو برادری کے لئے ایک اہم عبادت گاہ ہے بلکہ اس علاقے کے نوجوان اور مسلمان لڑکوں کے لئے معاش کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔

  • غیر معمولی ذریعہ معاش:

کراچی ائیر پورٹ کے قریب آبائی جیٹی پل پر واقع شری لکشمی نارائن مندر مقامی مسلم نوجوان کے لیے توجہ کا مرکز ہے۔ جسں کی وجہ سے یہ مندر ان کے لیے غیر معمولی معاش کا ذریعہ بن گیا ہے۔

پاکستان میں ہندو آبادی کی اکثریت صوبہ سندھ میں آباد ہے جہاں وہ اپنے مسلمان شہریوں کے ساتھ ثقافت، روایات اور زبان کے تحت مساویانہ زندگی گزار رہے ہیں۔

ہندو برادری کے لوگ باقاعدگی سے عبادت اور مذہبی تہواروں کے دوران کراچی پورٹ کے قریب آبائی جیٹی پل پر واقع شری لکشمی نارائن مندر جاتے ہیں۔

  • شری لکشمی نارائن مندر کی خصوصیت:

یہ مندر ہندو برادری کے لئے اہم ہے کیونکہ پاکستان ہندو کونسل کے رمیش ونکواانی کے مطابق یہ سمندر کے کنارے جنازے اور دیگر مذہبی رسومات ادا کرنے کے لئے بھی ایک مقدس مقام ہے۔

وانک وانی جو قومی اسمبلی کے ممبر بھی ہیں، نے کہا ہے کہ 'یہ کراچی میں ایک سمندر کے کنارے واقع واحد مندر ہے'

حکمران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون ساز نے کہا ہے کہ 'یہ مندر اس لئے اہم ہے کہ ہمارے ہندوؤں کو عبادت کرنے کے لئے ایک ضروری چیز کے طور پر سمندری پانی تک رسائی کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی رسومات کے ایک حصے کے طور پر بہت سی اشیاء کو سمندری پانی میں بہا دیتے ہیں'۔

  • نذرانہ عقیدت کی جانے والی اشیا، معاش کا ذریعہ:

ایک مقامی مسلمان نوجوان شفیق نے کہا کہ 'ہندو جو مندر میں آتے ہیں وہ اپنی رسومات کے ایک حصے کے طور پر قیمتی سامان سمیت بہت سی چیزیں پل کے نیچے سمندری پانی میں پھینک دیتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی لڑکے وہاں سے وہ سامان جمع کرکے اپنی روزی کما سکتے ہیں'۔

بیس سالہ شفیق، 17 سالہ علی اور کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ وقتا فوقتا سمندر میں ڈوبتے ہوئے عبادت گزاروں اور مندر میں آنے والوں کے ذریعہ پھینکے گئے سامان کو حاصل کر کے فروخت کرتے ہیں۔

  • قیمتی چیزیں کی دستیابی:

شفیق کے مطابق 'مقامی لڑکوں کو سمندری پانی سے سونے کے زیورات، چاندی کے زیورات، سکے اور دوسری قیمتی چیزیں ملتی ہیں'۔

انہوں نے کہا ہے کہ 'اب ہم نے خود کو تربیت دی ہے اور ماہر غوطہ خور اور تیراک بن گئے ہیں۔ جب ہم اشیاء کی تلاش کرتے ہیں تو اس کے بعد بھی کچھ چیزیں پانی کے اندر رہ سکتی ہیں'۔

  • کیا مندر کے زائرین اعتراض نہیں کرتے؟

یہ پوچھے جانے پر کہ آیا مندر کے زائرین یا اس کے نگراں افراد مذہبی رسومات کے تحت دی گئی اشیاء کو بازیافت کرنے اور لے جانے پر ان پر اعتراض کرتے ہیں؟ علی نے کہا کہ 'بعض اوقات ان پر ہندو لوگ اعتراض کرتے ہیں، جس کے بعد وہ وہاں سے چلے جاتے ہیں'۔

انہوں نے کہا ہے کہ 'جب اس مندر میں تہور اور دوسرے رسومات ادا نہیں کیے جاتے، ہم لوگ بھی وہاں سے چلے جاتے ہیں، بعد میں پل کے نیچے اپنی جگہ پر واپس آجاتے ہیں۔ ہم یہاں اس وقت تک موجود رہتے ہیں جب تک کہ مندر عبادت کے لئے کھلا نہیں جاتا۔ دن بھر ہم سمندر میں پھنسے ہوئے سامان کی تلاش کرتے رہتے ہیں'۔

یہ پوچھنے پر کہ انہوں نے سمندر سے بازیافت کی گئی اشیاء کے ساتھ کیا کیا؟ تو اس نے کہا کہ انہوں نے ان اشیا کو فروخت کردیا۔

  • عقیدت مند ہندو:

شفیق نے کہا ہے کہ 'ہمیں پچھلے کچھ برسوں میں سمندر میں بہت سی چیزیں مل گئیں۔ یہاں آنے والے ہندو اپنی عبادت اور اپنی رسومات میں بہت عقیدت مند ہیں'

اس کے علاوہ علی نے شکایت کی کہ 'ان دنوں کورونا وائرس وبائی بیماری کی وجہ سے مندر میں کوئی رش نہیں ہے۔ اس صورت حال نے ان کی روزی روٹی کو مزید مشکل بنا دیا ہے'۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details