لیکن مہاراشٹر میں جب اس کی اجازت ملی تو جمعیتہ علماء نے پہلے اپنی بورڈ میٹنگ کی اُس کے بعد سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملک کے موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے جمعیتہ علماء نے یہ پروگرام منعقد کیا۔
اس موقع پر جمعیتہ کے صدر مولانا ارشد مدنی نے خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ جمعیتہ ایک غیر سیاسی جماعت ہے، سنہ 1919 میں اس کا قیام ہوا۔ ہمارا پروگرام تھا کہ 100سال مکمل ہونے پر پورے ملک میں جشن منائے گے مگر بدقسمتی ہے کہ ملک کی مودی حکومت اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف کھڑی ہوئی ہے ان حالات میں کسی جشن کا موقع نہیں تھا اس لیے جشن کا پروگرام جمعیتہ نے رد کردیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ سارے ملک میں عوام مایوسی اور خوف و ہراس میں مبتلا ہیں تو ہم کیسے جشن منا سکتے ہیں یہ تو ماتم کا موقع ہے۔ کانگریس نے جمعیتہ کو آزادی سے قبل یقین دلایا تھا کہ ملک کا قانون سیکولر ہوگا مسلمانوں کا تحفظ ہوگا۔تب جمعیتہ نے آزادی کی لڑائی میں کانگریس سے بھی بڑھ کر قربانیاں دیں۔مگر آزادی کے بدقسمتی سے ملک تقسیم ہوا تو کانگریس کا ایک گروپ بدل گیا۔لیکن جمیعتہ نے گاندھی سے مطالبہ کیا کہ کانگریس نے جو مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا جائے اگر ملک تقسیم ہوا تو دستخط کانگریس نے کیے تھے جمیعتہ نے نہیں۔
ارشد مدنی نے یہ بھی کہا کہ ہم سو سالہ اجلاس دیو بند میں کرنا چاہتے تھے لیکن اترپردیش حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی۔مئو اور اعظم گڑھ میں جلسہ کی اجازت دینے کے بعد اسے رد کردیا گیا ہمیں دہلی میں جلسہ کی اجازت نہیں دی گئی لہذا یہ جلسہ ممبئی میں منعقد کیا گیا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جمیعتہ کا مطالبہ ہے حکومت اس قانون کو واپس لے ہاں اگر مردم شماری پرانے طرز پر ہوتی ہے تو ہمیں منظور ہے لیکن اگر کوئی چھوٹا افسر شہریوں پر شبہ کا اظہار کرتا ہے تو ایسا این پی آر ہمیں منظور نہیں، میں ہندو مسلم اور سکھ بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اس احتجاج کو ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ برپا کریں۔جب تک حکومت اس قانون کو واپس نہیں لیتی ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے مقابلہ کریں گے آئین کو بچانے کی ضرورت ہے۔
سابق رکن بشیر موسی پٹیل نے کہا کہ ہندوستان سب کا ہے۔طیاروں میں گھومنے والے افراد اس ملک کی اصل روح سے نا واقف ہیں۔آج ملک کا آئین بچانے کی ضرورت ہے۔ہماری خواتین اپنے حقوق اور آئین کی پاسبانی کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور ہوگئی ہیں ہمیں ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔کیا ہمیں ایسے کسی قانون کی ضرورت ہے جس نے پورے ملک کی بنیاد ہلا دی ہے جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاژ کر رہا ہے،۔
مولانا مستقیم احسن اعظمی نے کہا کہ مرجاو مگر حق اور انصاف سے ہٹنے کی ضرورت نہیں۔ جمیتہ کے ذمہ داروں نے مدام ملک میں ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا ہے۔آج ملک ملک کے لوگوں کو بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کسی طور بھی قابل قبول نہیں آئیے ہم سب مل کر ایک بار پھر ہندو مسلم اتحاد کے فروغ میں مشغول ہوتے ہوئے ملک کے ٹکڑے کرنے والے افراد کے عزائم کو خاک میں ملادیں۔
مولانا محمود دریا آبادی نے کہا کہ موجودہ حکومت ہی ٹکڑے ٹکڑے گینگ ہے کیونکہ یہ ملک کو مذہب کے نام پر آئین کا سہارا لے کر ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے۔ان کا یہ قانون ملک کے حق میں نقصان دہ ہے۔ہم سے ثبوت مانگا جارہا ہے اس ملک کے ذرہ ذرہ پر ہماری وفاداری کے نشان پیوست ہے۔ یہ قانون ہمارے غیر مسلم بھائیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ این آر سی کے نام پر اب این پی آر کی شروعات کی جارہی ہے ہم اسے بھی کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
مولانا عبداللہ نے کہا کہ حالات ہمارا امتحان لے رہے ہیں اس لیے خوف زدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، ہمارے اکابر نے اس ملک کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔ یہ ملک ایک گلدستہ کے مانند ہیں مگر اس کے پھولوں کو بکھیرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے جسے ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔