انہوں نے کہا کہ، 'یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس میں نہ انصاف کیا گیا ہے اور نہ اس میں کہیں انصاف دکھتا ہے، اس نے عدلیہ کی آزادی پر حال میں لگائے گئے سوالیہ نشان کو مزید گہرا کردیا ہے جو کہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث اور جگ ہنسائی کا موجب ہے۔'
مولانا محمود مدنی نے مزید کہا کہ، 'یہ فیصلہ تشویش ناک بھی ہے کیوں کہ جہاں ایک فسطائی عناصر جو کہ دیگر مساجد کو نشانہ بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں، انھیں شہ ملے گی اور ملک میں امن وامان کو زبردست خطرہ لاحق ہو گا، وہیں دوسری طرف ملک میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے درمیان مایوسی پھیلے گی اور عدالتوں پر اعتماد میں کمی آنے کے باعث بہت سارے تنازعات پرامن طریقے سے حل کیے جانے کے بجائے زور زبردستی اور تشدد کے ذریعہ طے کرنے کا رواج قائم ہو گا۔'
مولانا محمود مدنی نے ملک کے عام مفاد، نیک نامی اور انصاف کے تقاضوں کے مدنظر شدت سے یہ مطالبہ رکھا ہے کہ سی بی آئی کو اس فیصلے کے خلاف اعلی عدالت میں اپیل کرنی چاہیے اور اسے یقینی بنانا چاہیے کہ اس فیصلے سے پیدا ہونے والے نقصانات سے ملک کو کیسے بچایا جاسکے۔
محمود مدنی نے کہا کہ، 'چھ دسمبر کو بابری مسجد کو منہدم کرنا ایک مجرمانہ عمل تھا اور اس کے مرتکبین کو سزا ملنی چاہیے، 6/دسمبر 1992ء کو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئی فسطائی طاقتوں، سیاسی لیڈروں اور ان کے متبعین نے اشتعال انگیز تقریریں کیں اور نعرے لگائے اور پھر مل کر چار سو سالہ قدیم بابری مسجد کو منہدم کردیا، ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس کے ویڈیو اور فوٹو بنائے جو آج بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔