تاریخی شہر حیدرآباد بھارت کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے، جو اپنی برق رفتار ترقی اور میٹرو سٹی کے طور پر دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔
ترقی کے ساتھ شہر کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، شہر حیدرآباد میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے، پرانے شہر میں لوگوں کا گزر بسر حسب معمول ہو جاتا ہے، لیکن جو لوگ اس بدلتے دور میں زمانے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں وہ فلیٹ، اپارٹمینٹز، کمپلیکس جیسی بلند عمارتوں کا رخ کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج تیزی سے بلند عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں، لیکن مسلمانوں کو ان فلیٹز میں کئی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کتنے اسلامی تہوار عام دن کی طرح گزر جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا، اسلامی تہذیب و ثقافت کی قدریں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔
لیکن جو اپنی قوم و ملت کے لیےفکرمند ہیں، انھیں سب سے زیادہ تشویش میت کی تجہیز و تکفین کو لے کر ہے۔
کیا قبرستان بھی ختم ہو رہے ہیں؟ عثمان بن محمد الہاجری صدر وقف پروڈکشن نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے بتایا کہ 'اپارٹمنٹز میں اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو غسل و تکفین کے لیے کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بڑی عمارتیں تو تعمیر ہو رہی ہیں لیکن قبرستانوں کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلیٹ مالکان میت کو اکثر فلیٹ میں غسل کرنے سے منع کرتے ہیں۔ انہوں نے تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کی ذمہ داروں سے اپیل کی ہے کہ وہ قبرستانوں میں غسل خانے تعمیر کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ اکثر ہم لوگ مرد میت کو اپنے گھر میں غسل کراتے ہیں، لیکن عورتوں کو غسل کے لیے کافی پریشانیاں آتی ہیں، اگر کوئی صاحب ثروت موبائل وین کا انتظام کردے اپنی طرف سے جس میں خواتین کو غسل دیا جا سکے تو بہتوں کے لیے آسانیاں ہو جائیں گی۔
یہ حال صرف حیدرآباد کا ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر اس بڑے شہر کا ہے جہاں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد ہے۔