امت اگنی ہوتری : 'وی دی پیپل آف انڈیا' نامی جس گروپ سے آپ وابستہ ہیں، اُس نےمجوزہ قومی آبادی رجسٹر(این پی آر) کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی ہے ۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک معمول کا انتظامی معاملہ ہے۔ آپ اس ضمن میں کیا کہنا چاہیں گے؟
یوگیندر یادو : ہم نے قومی آبادی رجسٹر کے بائیکاٹ کی کال اس لئے دی ہے کیونکہ اس کے ذریعے قومی شہریت رجسٹر(این سی آر) کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ یعنی قومی آبادی رجسٹر مرتب کرنے کے بعد حکومت قومی شہریت رجسٹر مرتب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اگر حکومت محض شہریوں کی فہرست مرتب کرنا چاہتی تو اس کے لئے پہلے ہی ہمارے پاس ووٹر لسٹ موجود ہے۔ سب سےا ہم یہ کہ ہمارے پاس آدھار کارڈ اور راشن کارڈ موجود ہیں۔یعنی ووٹر لسٹوں اور راشن کارڈز کی وجہ سے ہمارے پاس آبادی کے اعداد و شمار پہلے سے ہی ہیں۔حکومت ووٹر لسٹ کو ہی این آر سی تسلیم کیوں نہیں کرتی ہے؟ اگر ووٹر لسٹ میں کسی کا نام شامل نہیں بھی ہوگا، تو اسے پانچ یا چھ ماہ کے اندراندر درخواست دائر کرنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔اوراگر حکومت کو لگتا ہے کہ ووٹر لسٹ میں کوئی غلط اندارج ہوا ہے تو اس ضمن میں حکومت اپنا اعتراض پیش کرسکتی ہے۔ لیکن حکومت پہلے سے ہی موجود ان فہرستوں کے بجائے نئے سرے سے آبادی کی فہرست مرتب کرنا چاہتی ہے۔ کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ اور کیا اگر یہ فہرست دستاویزات کی بنیاد پر مرتب کی جارہی ہے یعنی جس کے پاس دستاویزات ہونگے صرف اسی کا اندراج ہوگا تو کیایہ ایک امتیازی عمل نہیں ہوگا؟اس ضمن میں آسام کی مثال سامنے ہے۔جہاں قومی شہریت رجسٹر مرتب کی گئی ۔ہمیں یقین ہے کہ قومی آبادی رجسٹر اور نیشنل رجسٹر فار سٹیزنز ہمارے سماج میں اسی پیمانے کی تباہی مچائے گی، جس پیمانے کی تباہی نوٹ بندی کی وجہ سے ہماری معیشت میں مچ گئی ہے۔
امت اگنی ہوتری : آپ بار بار ایسا کیوں کہتے ہیں کہ نیشنل سٹیزنز رجسٹر مرتب کرنے کے پس پردہ حکمران بی جے پی کا ایک پوشیدہ ایجنڈا ہے؟
یوگیندر یادو : حقیقت میں بی جے پی کا ایجنڈا پوشیدہ نہیں ہے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کو مرتب کرنے کے عمل کی نگرانیسپریم کورٹ ن کررہا تھا، لیکن اس نے بی جے پی کے لئے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں کئے ۔انہیں لگا تھا کہ اس عمل کے ذریعے مسلم مہاجرین کو نکال باہر کیا جائے گا اور ہندؤں کو بچایا جائے گا۔ لیکن ایسا اس لئے نہیں ہوسکا کیونکہ اس عمل کی نگرانی سپریم کورٹ کررہا تھا۔اس عمل میں آسام میں انیس لاکھ غیر ملکیوں کی نشاندہی کی گئی لیکن ان میں اکثریت ہندؤں کی تھی ۔ چونکہ آسام میں بی جے پی کا ووٹ بینک بنگالی ہندؤں پر مشتمل ہے، اس لئے بی جے پی نے یہاں قومی رجسٹر آف سٹیزنز منسوخ کردی۔ لیکن اس وقت جس مجوزہ عمل کی بات ہورہی ہے اس کی نگرانی سپریم کورٹ نہیں کررہا ہے۔اس لئے یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔حکومت کے پاس پہلے ہی شہریت ترمیمی ایکٹ ہے۔بی جے پی یہ سب کچھ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں مزید ووٹ حاصل کرنے کے لئے کررہی ہے۔
امت اگنی ہوتری : تو اس سارے عمل میں تلوار کس کے سر پر لٹک رہی ہے؟
یوگیندر یادو : قومی رجسٹر آف سٹیزنز کی وجہ سے ملک میں ہر تیسرا شخص متاثر ہوگا۔اس کا اثر ہر قبائیلی، دلت اور غریب انسان پر پڑے گا، جن کے پاس شہریت کے دستاویزات نہیں ہیں۔ ان سب پر اس عمل کی تلوار لٹکتی رہے گی۔