دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بھارت کے زرعی شعبہ کو بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔آفاتِ سماوی کا نزول نہ صرف یہاں کے کسانوں کی امیدوں پر پانی پھیرتا ہے بلکہ اس سے ملک کی معشیت بھی بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔قومی سطح پر کئے گئے ایک مطالعہ (نیشنل سیمپل سروے)میں ظاہر ہوا ہے کہ ملک کے 50فیصد سے زیادہ کسان مقروض ہیں۔
اس سے قبل ہوئی سیس اسٹڈی میں بتایا گیا تھا کہ آندھراپردیش میں 93 فیصد کسان قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔اگلے پانچ برسوں میں کسانوں کی آمدن کو دوگنا کرنے کا مرکزی حکوموت کا مقرر کردہ نشانہ حقیقت سے بعید معلوم ہوتا ہے۔
جو کسان اپنی فصلوں کو ہوئے نقصان کی وجہ سے قرضے کی جال میں گرتے ہیں وہ باالآخرخود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔سال1995-2015 کے دوران تین لاکھ دس ہزار کسانوں نے قرضے سے تنگ آکر خود کشی کی ہے۔حالانکہ حکمرانوں کی جانب سے کسانوں کا مسئلہ حل کرنے کیلئے کئی اقدامات کئے جانے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن زمینی سطح پر کسانوں کے حالاتِ زندگی کسی طرح بہتر نہیں ہوئے ہیں۔زرعی بحران نے ملک کی کئی ریاستوں میں کسانوں کو انتہائی مفلس بنادیا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے چار سال قبل جنوری 2016 میں اُسوقت کی فصل بیمہ اسکیم کی جگہ 'پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا' کے نام سے ایک نئی اسکیم لائی تھی۔چونکہ سابق حکومتوں کی بیمہ اسکیموں سے کسانوں کا کچھ بھلا نہیں ہوپایا تھا۔کیونکہ اُن اسکیموں کیلئے بھاری قسطیں بھرنا پڑتی تھیں جبکہ معاوضہ محدود ملتا تھااور قسطوں میں حکومت کا حصہ بھی کم تھا، لہٰذا اس نئی اسکیم کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔
یہ نئی اسکیم پوری طرح نئی بھی ہے اور دلچسپ بھی ہے ۔اسکے تحت نقصان کا جائزہ لینے اورکسانوں کیلئے فوری معاوضہ کی ادائیگی کو یقینی بنانے کیلئے 'ریموٹ سینسنگ اسمارٹ فون' اور ' ڈرون' جیسے آلات استعمال کئے جائیں گے۔یہ اسکیم کسانوں کی آمدن کو اُتار چڑھاؤ سے تحفظ دینے میں مددگار ہے اور یہ کسانوں کو کھیت چھوڑ کر دوسرے شعبوں میں روزگارکے مواقع کی تلاش کرنے کی مجبوری سے بھی بچاتی ہے۔
غیرمؤثر انتظامیہ
اس اسکیم کے تحت خریف سال 2019 تک کسانوں کی جانب سے درخواست دیے جانے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔سال2016-17میں پانچ کروڑ اسی لاکھ، سال2017-18میں پانچ کروڑ پچیس لاکھ اور سال 2018-19 میں پانچ کروڑ64لاکھ کسانوں نے اس اسکیم میں شمولیت اختیار کی ہے۔
مجموعی طور پر ان تین سال کیلئے باالترتیب22 ہزار 8 کروڑ، 25 ہزار481 کروڑ اور29 ہزار 35 کروڑ روپے کا پریمیم جمع ہوگیا۔یہ بات واضح ہے کہ اگرچہ اسکیم میں شامل کسانوں کی تعداد گھٹ گئی ہے لیکن پریمیم میں بڑھوتری ہوئی ہے کہ کسانوں کا حصہ باالترتیب 4 ہزار 221کروڑ، 4,431کروڑ اور4,889کروڑ روپے رہا ہے۔
اندازہ ہے کہ خریف سال 2019-20 کے دوران تین کروڑ ستر لاکھ لوگوں نے اسکیم میں اپنا اندراج کرایا ہے اور ان میں سے بیشتر بینکوں کے مقروض نہیں ہیں۔البتہ بیمہ کمپنیوں کی جانب سے کسانوں کو ادا کیا جاچکا معاوضہ اُن سے وصول کردہ پریمیم کے مقابلے میں یکسر مختلف ہے۔
اس فرق کو بیمہ کمپنیوں کے منافع کے ساتھ منسوب کیا گیا، جو پہلے سال 5,391کروڑ، دوسرے سال 3,776کروڑ اور تیسرے سال 14 ہزار 789 کروڑ روپے رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ بیمہ کمپنیوں نے اس اسکیم کا بھاری فائدہ اُٹھایا ہے، نتیجہ یہ کہ کسان انجمنیں یہ الزام لگاتی ہیں کہ مذکورہ اسکیم فقط بیمہ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہی بنائی گئی ہے۔
یہ بیمہ اسکیم ایک انتظامی خامی بن چکی ہے۔چونکہ وزارتِ زراعت پوری توجہ دینے میں ناکام ہوئی ہے بیمہ کمپنیوں نے سالانہ اربوں روپے کی ادائیگی کو نظرانداز کردیا۔
اس اسکیم کا غیر مؤثر نفاذ اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ دسمبر2018میں ختم ہوئے خریف سیزن کے دوران بیمہ کمپنیوں پر کسانوں کے پانچ ہزار کروڑ روپے واجب تھے۔اُس سال خریف سیزن کے دوران جہاں کسانوں کو 14 ہزار 813کروڑ روپے کا معاوضہ واجب تھا وہاں جولائی 2019تک فقط 9,799کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی تھی۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 45اضلاع کو ابھی تک بیمہ کے 50فیصد پیسے دینا باقی ہے حالانکہ اسکیم کے تحت کسانوں کی رقومات لازمی طور پر خریف یا ربیع سیزن کے آخر کے ختم ہونے کے دو ماہ کے اندر اندر ادا ہونی چاہیئے۔
سال2018کا خریف سیزن دسمبر کے ساتھ ختم ہوگیا مگر بیمہ کمپنیوں کے بیچ عدمِ تعاون کی وجہ سے اگلے سال آخر تک بھی کسانوں کو ادائیگی نہیں کی جاسکی تھی۔
دوسری جانب کسانوں کی شکایت ہے کہ بعض فصلوں کیلئے بیمہ کا پریمیم بہت زیادہ ہے۔ایسے میں مرکزی حکومت نے خریف2020کے آخر تک ان فصلوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ریاستی حکومت کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔