مرکزی حکومت اپریل سے دیہی علاقوں میں سوچھ بھارت کے دوسرے مرحلے کی شروعات کرنے کے لئے تیار ہے ۔اس کے ایک حصے کے طور پر مرکزی کابینہ نے حال ہی میں پینے کے پانی اور صاف ستھرائی کے لئے 52 ہزار کروڑ روپے مْختص کرنے کو منظوری دی ہے۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صفائی کے اس انتہائی بڑے پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے کے پہلے سال میں تقریباً10 ہزار کروڑ روپے مْختص کئے گئے تھے۔اس کا بنیادی مقصد دوسرے مرحلے میں کھلے میں رفع حاجت کے لئے جانے کی روش کو جڑ سے اْکھاڑ پھینکنا ہے۔
حال ہی میں اسٹینڈنگ کمیٹی برائے دیہی ترقی جس کے ذمہ مختلف ریاستوں میں صاف صفائی کے معیار کا جائزہ لینا ہے، اس نے کچھ ناقابل تردید حقائق سامنے لائے ہیں۔اس نے تجزیہ کیا کہ اتر پریدیش، بہاراور مدھیہ پریدیش کی حکومتوں نے ڈھائی سال کے عرصے میں سوچھ بھارت کے کھاتے میں 6,500کرڑروپے کی رقم خرچ نہیں کیے بلکہ انہیں ایسے ہی جمع کر رکھا ہے۔
اگر آندھرا پریدیش، پنجاب اور آسام کو بھی ان ریاستوں کی فہرست میں شامل کیا جائے تو بنا خرچ کئے ہوئی رقم بڑھ کر 14ہزار کروڑ سے زائد ہو جاتی ہے۔اسٹینڈنگ کمیٹی کے جائزاتی رپورٹ میں سوچھ بھارت کے پہلے مرحلے کی ناکامی کے بنیادی وجوہات یہ بتایا گیا ہے کہ اس ناکامی کی وجہ مْختلف ایجینسیوں میں عزم اور احتساب کا فْقدان ہے۔اگر اس حوالے سے مناسب لائحہ عملا کیا گیا ہوتا تو خرچ کی گئی رقم کی مناسبت سے ہی مناسب نتائج بھی برآمد ہوئے ہوتے۔کم از کم تحریک کے دوسرے مرحلے میں اصلاحات کو بروئے کار لاکر اور مْختص کی گئے ایک ایک روپے کو مناسب طریقے سے خرچ کر کے بلند و بالا صاف ستھرے کے کردار کا ادراک کرنا ہوگا۔
اس مقصد کے حصول کے لئے ستیہ گرہ جیسی تحریک کی شروعات کرتے ہوئے ہمیں دیہی علاقوں سے غیر صحت مند ماحول، گندگی اور کوڑے کرکٹ کو ہٹانا ہوگا۔مودی حکومت کی طرف سے 2اکتوبر2014 کو شروع کی گئی سوچھ مہم کو کھلے میں رفع حاجت کی روش،کھلی نالیوں اور کچرے کو کھلے میں پھینکنے کے رجحان سے قوم کو ایک پْختہ عزم کی طرف متوجہ کیا گیا۔
کشمیر سے کنیہا کماری تک گونجنے والے سوچھ بھارت کے نعرے کو عملی جامع پہنانے کے لئے صاف ستھرے اور سرسبز ماحول کو ملک کی تمام رہائش گاہوں میں عزم کے ساتھ قائم کرنا ہوگا۔ بابائے قوم کے 150ویں یوم پیدائش یعنی 2اکتوبر 2019تک ملک میں مستقل طور پر بیت ا لخلاء، ٹریٹمنٹ پلانٹ سسٹم اور صاف سڑکوں کی تعمیر کو یقینی بنانا خود میں ہی ایک بہت بڑی بات ہے۔
مرکزی حکوت نے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے 9کروڑ 20لاکھ بیتْ الخلاء کی تعمیر سے ملک کی 28ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کے ساڑھے پانچ لاکھ گاؤں کو کھلے میں رفع حاجت کی لعنت سے آزاد کیا جا چکا ہے۔ تاہم قومی شماریاتی ادارے این ایس اونے حکومت کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کیا کہ ملک کی 95فیصد آبادی کو بیت ا لخلاء دستیاب ہیں اور تصدیق کے مطابق دیہی علاقوں میں اس کی شرح اصل میں 71فیصد ہے۔