بھارت کے نزدیک ترین پڑوسی اور اتحادی ملک نیپال سے یہ توقع ہرگز نہیں تھی کہ وہ نوآبادیاتی دور کے قدیم معاہدوں کو کھنگال کر متنازعہ علاقوں پر اپنا دعویٰ جتلائے گا اور اپنے پرانے ہمسائے اور اتحادی کے ساتھ تعلقات بگاڑ دے گا۔
نیپال نے عُجلت میں اپنی پارلیمنٹ میں بل پاس کرتے ہوئے تین مقامات کالا پانی، لیپو لیکھ اور لمپیادھرو کو اپنے ملک کا حصہ ظاہر کردیا۔
نیپال کے اس غیر متوقع اقدام سے بھارت شدید مخمصے کا شکار ہوا۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ نیپال کی اس ڈھٹائی پر غصے کا اظہار کرے، نفرت کا اظہار کرے یا پھر نیپال کے اس اقدام کو نظر انداز کرے۔
یہ ساری صورتحال ایک ایسے وقت میں رونما ہوئی، جب بھارت کی ساری توجہ لائن آف ایکچیول کنٹرول کی جانب مبذول تھی، جس پر چین نے نہ صرف اپنی فوجیں نزدیک لائی تھیں بلکہ وہ بھارت کا امتحان بھی لے رہا تھا کہ آیا وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کا کس قدر اہل ہے۔
پندرہ جون کو لائن آف ایکچیول کنٹرول پر جو کچھ بھی ہوا اور اس کے بعد جس طرح سے بھارت نے چین کے دعوے کے آگے سرخم کیا، اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔ یہاں تک کہ اس کے اثرات اس بات پر بھی مرتب ہونگے کہ بھارت اب نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعے کے چیلنج سے کیسے نمٹے گا۔
سوال یہ ہے کہ نیپال نے نئی حد بندی کا دعوی اس موقعے پر ہی کیوں کیا جب پہلے ہی سے چین اور بھارت کے درمیان تنازعہ چل رہا ہے؟ کیا یہ سارا کھیل نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے اپنے ملکی مسائل سے نیپالیوں کی توجہ ہٹانے کےلئے کیا یا پھر اسے ایسا کرنے کے لئے چین نے اُکسایا ہے؟ جو اس خطے میں بھارت کا اثر و رسوخ ختم کرنے کے درپے ہے۔
نیپال کی جانب سے تنازعہ پیدا کرنے کی ٹائمنگ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ معاملہ چین سے ہی جڑا ہوا ہے۔ لیکن کچھ ایسے حالات بھی ہیں، جن کو دیکھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم اولی کے نئی دلی کے ساتھ تعلقات کی تلخی بھی اُن کے اس سخت اقدام کا سبب بن گئی ہے۔
بھارتی فوجی سربراہ جنرل ناوارئین نے کٹھمنڈو کے برتائو کا اندازہ لگاتے ہوئے اور وزیر اعظم اولی کے رویے کو سمجھے بغیر ہی الزام لگایا کہ 'نیپال نے چین کی پشت پناہی پر اس طرح کی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے'۔ حالانکہ بھارتی فوجی سربراہ کے اس اظہار خیال کو کافی حد تک جواز بھی حاصل ہے لیکن اُن کے اِس بیان سے یہ مطلب نکالا گیا کہ نیپال جو ایک خود مختار ملک ہے، اپنے فیصلے اپنے بل بوتے پر لینے کا اہل نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوجی سربراہ کے اِس بیان پر کٹھمنڈو کے سرکاری حلقوں میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔
اس کے بعد ہی نیپال کی سرکار نے تین متنازعہ مقامات کو رسمی طور پر اپنے ملک کا حصہ قرار دینے کا عمل تیز کردیا۔ جن پر بھارت کا دعویٰ ہے۔
نیپال نے اس پر نئی دلی کے ردعمل کا انتظار بھی نہیں کیا اور نہ ہی نیپال نے اس معاملے کو مذاکرات سے حل کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی۔
اس ضمن میں بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد ہی وزیراعظم اولی نے کہا کہ 'وہ اس مسئلے پر نئی دلی کے ساتھ بات کرنے کےلئے تیا ر ہیں'۔
اس پر نیپال میں رہے ایک سابق بھارتی سفیر نے کہا ہے کہ 'اب بات کرنے کےلئے کیا بچا ہے'۔
حالانکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں بات چیت کرنے کےلئے ابھی بھی بہت کچھ بچا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نئی دلی نئی حکمی عملی وضح کرے۔
نئی دلی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر اس نے ایسا کیا کچھ کیا ہے کہ نیپال اس کے تئیں اس قدر ناراضگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ آخر نیپال نے متنازعہ علاقوں کو رسمی طور پر اپنی تحویل میں لینے کا اقدام کیوں کیا؟