اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

سرحد پر 'پاکستانی شدت پسندی' کا معقول جواب دیا گیا

بھارت اور پاکستان کے لیے 20 اکتوبر خونی دن ثابت ہوا جبکہ لائن آف کنٹرول پر دونوں ممالک کے تقریباً 9 افراد ہلاک ہوئے جن میں فوجی جوان کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے پہنچائے گئے نقصان کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جارہا ہے۔

سرحد پر پاک دہشت گردی کا معقول جواب

By

Published : Oct 25, 2019, 11:28 PM IST

Updated : Oct 28, 2019, 7:51 PM IST

بھارتی فوج نے دعوی کیا ہے کہ اس نے پاکستانی چوکیوں اور وہاں موجود شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے تباہ کردیا ہے۔ جنرل بپن راوت نے بتایا کہ 'اس کارروائی میں 6 تا 10 پاکستانی فوجی جوانوں اور 3 شدت پسندوں کو مار گرایا گیا۔'

وہیں پاکستانی میڈیا نے بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے الٹا یہ دعویٰ پیش کیا کہ پاکستانی فوج کی کارروائی میں 9 بھارتی جوان ہلاک ہوئے ہیں۔

جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی نیز سوشل میڈیا پر فرضی ویڈیوز اور تصاویر کو شیئر کرتے ہوئے دونوں ممالک اپنے اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان طویل تصادم کے بعد 2003 میں جنگ بندی پر ایک معاہدہ طئے پایا تھا جس کے بعد کچھ عرصہ تک سرحدی علاقوں میں امن و سکون کا ماحول بنا ہوا تھا۔ معاہدہ سے قبل ارینہ سیکٹر میں رہنے والے تقریباً 76 ہزار شہریوں کو پاکستانی گولہ باری سے بچنے کےلیے اپنے گھربار کو چھوڑنا پڑا تھا جبکہ سرحد کے اس پار بھی یہی صورتحال تھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ 2013 میں سب کچھ بدل گیا جبکہ نواز شریف کے برسراقتدار آنے سے پاک فوج ناخوش تھی کیونکہ نواز شریف بھارت کے ساتھ امن بات چیت کےلیے کوشاں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف کی فتح کے بعد پاک فوج نے ہیرانگر، سامبا اور جنگلوٹ کیمپ پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا آغاز کردیا تھا اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

بھارت میں منعقدہ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار ملا جس نے شدت پسندی کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہوئے پاکستان کی ہر کارروائی کا جواب دیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ کے بعد جنگ بندی کارروائی کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگیا جبکہ 2012 میں 100 جنگ بندی کی کارروائیاں کی گئی تھیں جو 2018 میں بڑھ کر دو ہزار تک جا پہنچی۔

پاکستان کی جانب سے کی جانے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں دراصل شدت پسندوں کو سرحد پار کرانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 18-2014 کے درمیان 1461 شدت پسندوں نے سرحد پار کرتے ہوئے کشمیر میں دراندازی کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں صرف دراندازی کے مقصد کے تحت نہیں کی جاتیں بلکہ ایل او سی پر اپنی طاقت کے مظاہرہ کےلیے بھی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں اور بھارت ہمیشہ ایسی کوشش کو روکتا رہا ہے جبکہ 20 اکتوبر کو بھی بھارت کی جانب سی کی گئی جوابی کارروائی میں دو جوان شہید ہوگئے۔

کیا اس تشدد سے بھری کارروائیوں کو روکنا ممکن ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو فی الحال مشکل نظر آتا ہے لیکن اس کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر پاکستان سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو روک دیں تو بھارت بھی جوابی کارروائیوں کو کم کرسکتا ہے۔

فی الحال پاکستان نے ابھی تک اس سلسلہ میں اپنا کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو اپنے کئے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔

موجودہ دور میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات نچلی سطح پر آگئے ہیں اور اس بات کی گنجائش کم ہے کہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر امن اور اعتماد کا ماحول پیدا ہوگا۔ سرحد پر موجودہ حالات بدستور برقرار رہیں گے۔

امکانات یہ بتارہے ہیں کی سرحد کے دونوں جانب سے گولہ باری جاری رہے گی۔سرحد کی دونوں جانب سے ایک دوسرے ممالک پر جو بیان بازی جاری ہے اس ختم کردینا چاہیے ۔یہ انتہائی افسوسناک اور خطرناک صورتحال ہے کہ ہم اپنے شہریوں اور جوانوں کی زندگیوں کو مسلسل اس جنگ بندی کے خلاف ورزی میں کھوتے جارہے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا کی قلم سے ۔۔۔۔

Last Updated : Oct 28, 2019, 7:51 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details