بھارتی فوج نے دعوی کیا ہے کہ اس نے پاکستانی چوکیوں اور وہاں موجود شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے تباہ کردیا ہے۔ جنرل بپن راوت نے بتایا کہ 'اس کارروائی میں 6 تا 10 پاکستانی فوجی جوانوں اور 3 شدت پسندوں کو مار گرایا گیا۔'
وہیں پاکستانی میڈیا نے بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے الٹا یہ دعویٰ پیش کیا کہ پاکستانی فوج کی کارروائی میں 9 بھارتی جوان ہلاک ہوئے ہیں۔
جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی نیز سوشل میڈیا پر فرضی ویڈیوز اور تصاویر کو شیئر کرتے ہوئے دونوں ممالک اپنے اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان طویل تصادم کے بعد 2003 میں جنگ بندی پر ایک معاہدہ طئے پایا تھا جس کے بعد کچھ عرصہ تک سرحدی علاقوں میں امن و سکون کا ماحول بنا ہوا تھا۔ معاہدہ سے قبل ارینہ سیکٹر میں رہنے والے تقریباً 76 ہزار شہریوں کو پاکستانی گولہ باری سے بچنے کےلیے اپنے گھربار کو چھوڑنا پڑا تھا جبکہ سرحد کے اس پار بھی یہی صورتحال تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ 2013 میں سب کچھ بدل گیا جبکہ نواز شریف کے برسراقتدار آنے سے پاک فوج ناخوش تھی کیونکہ نواز شریف بھارت کے ساتھ امن بات چیت کےلیے کوشاں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف کی فتح کے بعد پاک فوج نے ہیرانگر، سامبا اور جنگلوٹ کیمپ پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا آغاز کردیا تھا اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
بھارت میں منعقدہ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار ملا جس نے شدت پسندی کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہوئے پاکستان کی ہر کارروائی کا جواب دیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ کے بعد جنگ بندی کارروائی کی تعداد میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگیا جبکہ 2012 میں 100 جنگ بندی کی کارروائیاں کی گئی تھیں جو 2018 میں بڑھ کر دو ہزار تک جا پہنچی۔