بھارت کو اراضی تنزل کے بحران کا سامنا ہے۔یہ تیس فیصد سے زائد ارضی (96ملین ہیکٹرز)پہلے ہی جنگلات کے کٹاؤ، زمین کھسکنے کے واقعات، آبی پناہ گاہیں سکڑنے وغیرہ جیسے وجوہات کی بناپر کھو چکا ہے۔
اراضی تباہی کے نتیجے میں کے ہر برس انڈیا کی گھریلو پیداوار2.5فیصد گھٹ رہی ہے۔ اس طور پر نہ صرف فصل کی پیداوارمتاثر ہورہی ہے بلکہ ملک میں موسمیاتی تغیربد سے بدتر ہورہاہے۔
جبکہ اس موسمی تغیر کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے اراضی کی مزید تباہی ہورہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے میں جنگلا ت کا سب سے زیادہ کردار ہے۔لیکن بھارت گزشتہ18برس سے زائد عرصے (2018ء تک ) 1.6ملین ہیکٹر جنگلات کھوچکا ہے۔
پانچ برس سے زائد عرصے (2015ء تک )حکومت نے 10ملین سے زیادہ درختوں کے کٹائی کی اجازت دے دی ہے۔ نریندر مودی کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس ( این ڈی اے ) کی حکومت میں جون 2014ء سے مئی 2018ء تک نیشنل بورڈ آف وائلڈ لائف نے ملک کے محفوظ اور حساس ماحولیاتی خطوں میں پانچ سو پروجیکٹوں کی منظوری دے دی ہے۔
جبکہ اس حکومت کی پیش رو یونائیٹڈپراگرسیوالائنس(یو پی اے) حکومت نے سنہ 2009ء سے 2013ء تک اس طرح کے 260پروجیکٹوں کی منظوری دے دی تھی۔
اگر صورتحال یہی رہی تو مستقبل قریب میں بھارت کے کسانوں کا 80فیصد، جو چھوٹے یا درمیانی درجے کے کسانوں پر مشتمل ہے، بری طرح متاثر ہوگا۔
بھارت جو زرعی اقتصادیات کا حامل ملک ہے، دنیا بھر میں سب سے زیادہ دودھ، دال اور پٹ سن پیدا کرنے والا ملک ہے۔
جبکہ چاول، گیہوں، گنا، سبزیاں، پھل اور کپاس پیدا کرنے میں دوسرے درجے پر ہے۔ اور اب اقوام متحدہ ( یواین ) کے اُمور معلومہ کے مطابق یہی ملک غذائی بحران کے خدشے سے دوچار ہے۔
دیہاتوں میں جانوروں کی پیداواربھی اراضی کی تباہی کے باعث گھٹ جائے گی، زمین کی یہ تباہی در اصل موسمی تغیر کا نتیجہ ہے۔
یہ تما چیزیں موسمی تغیر سے متعلق حکومتی پینل (آئی پی سیسی) نے کہا ہے، جو موسمی تغیر کا جائزہ لینے والی اقوام متحدہ کی انٹر گورنمنٹل باڈی سے منسلک ہے۔
دہلی کی ایک رضا کار انجمن دی انرجی اینڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ (TERI) کے مطابق جنگلات کا حجم گھٹ جانے کے نتیجے میں پہلے ہی سالانہ جی ڈی پی میں 1.4فی صد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
بھارت جیسے کئی ممالک کو فی الوقت موسمی تغیر کے بحران کا سامنا ہے۔خدشہ ہے کہ ان ممالک میں زمین کاربن ڈائی CO2، گرین ہاؤس گیس جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گا۔
یہ صورتحال گلو بل وارمنگ کے خطرے کے سب سے بڑے اسباب میں شمار کی جاتی ہے۔پہلے ہی کرہ ارض پر دس لاکھ اقسام کے جاندار نیست و نابود ہوجانے کے حاشیئے پر ہیں۔اس کی وجہ سے عالمی سطح پر غذائی بحران کے پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے کیونکہ جانوروں کی پناہ گاہیں ختم ہورہی ہیں اور اراضی تباہ ہورہی ہے۔
حکومت ہند کو اس بات کا احساس ہوا تھا کہ قبائلی اور مقامی لوگ، جنہیں ماحولیات سے متعلق بھر پور جانکاری حاصل ہے، جنگلات کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔
فیصلہ سازی کے عمل میں ان لوگوں کو شامل کرنے کے نتیجے میں ماحولیات کے تحفظ، جس میں اراضی اور جنگلات کی تباہی روکنا شامل ہے، میں مدد ملے گی اوراس کی وجہ سے موسمی تغیر سے نمٹنے کی کوششوں میں بھی مدد ملے گی۔
سنہ 2006ء میں پاس کئے گئے فارسٹ رائٹس ایکٹ( ایف آر اے ) موسمی تغیر سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس ایکٹ میں قبائلوں اور جنگلات میں روایتی طور پر مقیم لوگوں کا جنگلات کی زمین اور دیگر قدرتی ذرائع کا تحفظ کرنے کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
وہ لوگ ایسا کئی نسلوں سے کرتے آئے ہیں۔ لیکن فارسٹ رائٹس ایکٹ کے تحت یہ حقوق تفویض کرنے کا عمل سست رفتار ہے۔
سنہ 2019 بتاریخ 30 اپریل تک حکومت محض 12.93ملین ہیکٹر جنگلاتی اراضی پر ہی یہ حقوق تفویض کرچکی ہے جبکہ ملک بھر میں 40 ملین جنگلات اراضی پر یہ حقوق دینے مطلوب ہیں۔