بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھارت کے لیے اپنے سالانہ مشورے میں اقتصادی سست روی اور آمدنی میں کمی کے بعد گہرے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ملکی وزارت خزانہ سے پوچھا ہے کہ قومی بجٹ میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں نیز اشیاء اور خدمات سے متعلق ٹیکس (جی ایس ٹی) کی مد میں مالی وسائل کے حصول کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے، آیا وہ واقعی حاصل کیا جا سکتا ہے؟
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال یکم اپریل سے 15 اگست تک کے درمیان براہ راست ٹیکس ریونیو میں زبردست کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ شرح کم ہو کر 4.7 فیصد ہو گئی حالانکہ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں یہ شرح 9.6 فیصد تھی اور مطلوبہ شرح تو 17.3 فیصد ہے۔
نجی شعبے میں خوف
اس سے قبل منصوبہ بندی کے حکومتی ادارے 'نیتی آیوگ‘ کے نائب سربراہ راجیو کمار نے بھی اقتصادی سست روی پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ملک کی اقتصادی صورت حال غیر معمولی طور پر تشویش ناک ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں ملکی مالیاتی شعبے کی ایسی حالت کبھی نہیں رہی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اس وقت کوئی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا اور نہ ہی کوئی قرضے دینے کو تیار ہے'۔
راجیو کمار کا خیال ہے کہ 'پرائیویٹ سیکٹر میں پائے جانے والے خوف کو ختم کرنا ہو گا تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے'۔ نیتی آیوگ کے چیئرمین بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہیں۔
بھارت کے مرکزی مالیاتی ادارے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی ملکی معیشت میں سست روی کو انتہائی حد تک باعث تشویش قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میرا ماننا ہے کہ معیشت میں سست روی یقینی طور پر بہت ہی تشویش ناک ہے۔ آپ ہر طرف دیکھ سکتے ہیں کہ کمپنیاں فکر مند ہیں۔ نئی اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن بین الاقوامی منڈیوں سے قرض لینے سے کوئی سدھار تو ممکن نہیں مگر صرف وقتی بہتری ہی آ سکتی ہے'۔
بالواسطہ ٹیکس نظام میں بہتری کی ضرورت
آئی ایم ایف نے اپنے مشورے میں جی ایس ٹی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور بالواسطہ ٹیکس نظام کو مزید سہل بنانے پر زو ر دیا ہے۔ اقتصادی سست روی کا اثر مختلف شعبوں پر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ کئی اہم صنعتوں میں بڑے پیمانے پر ملازمین کی ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔
ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹو موبائل سیکٹر پر اس اقتصادی سست روی کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔ سوسائٹی آف انڈین آٹو موبائل (سیام) کے مطابق آٹو موبائل انڈسٹری میں دس لاکھ ملازمتوں کے ختم ہو جانے کاخطرہ اور بڑھ گیا ہے۔ مزید یہ کہ اگر حالات بہتر نہ ہوئے، تو یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
بھارت کی فیڈریشن آف آٹو موبائل ڈیلرز (فاڈا) کے مطابق گزشتہ تین ماہ یعنی مئی سے جولائی کے درمیان گاڑیاں فروخت کرنے والے تاجروں نے اپنے تقریباً دو لاکھ ملازمین فارغ کر دیے۔ فاڈا کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں کسی بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔ مستقبل میں مزید ملازمتیں ختم ہونے سے بہت سو شو رومز بند ہو سکتے ہیں۔