اس معاملے کے بعد پولیس ویکرو گاؤں میں گھر گھر لوگوں کی تلاشی لے رہی ہے لیکن ابھی بھی وکاس دوبے پولیس کی گرفت سے باہر ہے۔
وکاس دوبے ابھی بھی پولیس کی گرفت سے باہر پولیس انتظامیہ نے اس معاملے میں کئی الگ الگ ٹیم تشکیل دے کر جانچ شروع کر دیا ہے جس میں اب تک 2 سب انسپکٹر ایک کانسٹیبل اور تھانیدار کو معطل کیا گیا ہے۔
وہیں اس تعلق سے ایک خط بھی وائرل ہوا ہے جو اس حادثے میں شہید ہوئے ڈی ایس پی دیویندر مشرا نے تھانیدار چوبے پور ونے تیواری کے خلاف لکھا تھا جس میں ونے تیواری کو تھانے سے ہٹانے کے لیے بدمعاشوں سے تعلق رکھنے کے بارے میں ذکر ہے اور ایس ایس پی کانپور سے ونے تیواری کو ہٹانے کی سفارش بھی کی تھی جس پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی تھی۔
وکاس دوبے ابھی بھی پولیس کی گرفت سے باہر پانچ دن گزر جانے کے بعد بھی وکاس دوبے کے تعلق سے پولیس کے ہاتھ خالی ہیں، وکاس دوبے اپنے بیس سے زیادہ ساتھیوں کے ساتھ فرار ہے پولیس کسی کا کوئی سراغ نہیں لگا پارہی ہے، پولیس نے وکاس دوبے کے ساتھ اس کے سبھی ساتھیوں کے پوسٹر کئی جگہوں چسپاں کیے ہیں۔
وکاس دوبے کے بارے میں پولیس کو ایسا لگتا ہے کہ وہ نیپال بھاگ سکتا ہے اس لیے پڑوسی ملک کے بارڈر پر بھی اس کے پوسٹرز چسپاں کیے گئے ہیں۔
وکاس دوبے پر پولیس نے پچاس ہزار روپے کا انعام مقرر کیا تھا، دو دن بعد اس رقم کو بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے بارے میں کوئی سراغ نہیں مل پا رہا پولیس نے اس کے گھر کو بلڈوزر کی مدد سے نیست و نابود کر دیا ہے پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے گھر کے اندر ایک محفوظ بنکر تھا جہاں سے پولیس کو اسلحہ، بارود اور بم برآمد ہوا ہے۔
آج بھی پولیس نے کئی گھروں کی تلاشی لی ہے جس میں ایک گھر سے تین بم برآمد ہوئے ہیں۔ پولیس نے اب تک گاؤں سے تین لوگوں کو گرفتار کیا ہے، اس معاملہ میں ایس ایس پی کانپور نے تھانیدار چوبے پور ونے تیواری کو پہلے ہی معطل کر دیا تھا اب دو سب انسپکٹر اور ایک سپاہی کو بھی معطل کر دیا ہے۔
سنہ 2006 میں وکاس دوبے جیل سے رہا ہوا تھا تب ایک صحافی کو دئے گئے انٹرویو میں وکاس دوبے نے اپنے بارے میں بتایا تھا جس سے اس کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔
جب کی وہ 2001 میں اسٹیٹ منسٹر کا تھانے کے اندر قتل کرنے کے بعد رہا ہوا تھا، اس کے بعد سے وکاس دوبے کے اوپر درجنوں مقد مات درج ہوئے ہیں قتل کے ایک مقدمے میں وہ جیل بھی گیا اور اسے عمر قید کی سزا بھی ہوئی ہے لیکن وہ فرار تھا تبھی 2018 میں اسے اتر پردیش کی اسپیشل ٹاسک فورس نے گرفتار کیا تھا اس وقت بھی اس نے اپنا تعلق اور رسوخ کئی ایم ایل اے کے ساتھ ہونا بتایا تھا۔
اس نے اپنے اقرار نامہ میں کئی سیاسی رہنماؤں کے نام لیے ہیں، اس کے رسوخ سیاسی پارٹیوں میں کافی مضبوط بتائے جا رہے ہیں۔
جو شہید ڈی ایس پی دیویندر مشرا نے چودہ مارچ 2020 کو ایس ایس پی کانپور کو لکھا تھا جس میں اس نے وکاس دوبے پر کاروائی کرنے کے لئے لیے تھانے دار ونے تیواری کو کہا تھا لیکن اس نے وکاس دوبے پر کوئی کاروائی نہیں کی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے ہوئے ایس ایس پی سے سفارش کی تھی کہ تھانے دار چوبے پور ونے تیواری کو ہٹا دیا جائے۔
ایس ایس پی کانپور اننت دیو تیواری نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی، موجودہ وقت میں اننت دیو تیواری اس ٹی ایف کے ڈی آئی جی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس کیس میں سب سے زیادہ پولیس پر انگلی اٹھ رہی ہے جس کو لے کر آئی جی کانپور رینج نے جانچ کر کاروائی کرنے کا یقین دلایا ہے.
شہید ڈی ایس پی دیویندر مشرا نے کئی بار تھانیدار ونے تیواری کو وکاس دوبے کو گرفتار کرنے کے لیے کہا تھا لیکن وہ ہر بار بہانہ بناکر ٹال مٹول کرتے رہے، اس وقت کے ایس ایس پی اننت دیو تیواری سے جب اسکی شکایت کی گئی تو وہ بھی کئی بار نظر انداز کر گئے، اب لوگ یہ کہ رہے ہیں' کہ اننت دیو تیواری بھی وکاس دوبے پر مہربان تھے' اِن کے ٹرانسفر ہونے کے بعد نئے ایس ایس پی کے آنے کے بعد جب ڈی ایس پی دیویندر مشرا نے خود ٹیم بناکر وکاس دوبے کو گرفتار کرنے پہنچے تو پولیس کے آنے کی اطلاع وکاس دوبے کو پہلے ہی ہوگئی تھی، اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پولیس کی گھیرابندی کر کے جدید اسلحوں سے گولیاں چلانا شروع کردی جس میں آٹھ پولیس کے جوان شہید ہو گئے اور چھ جوان زخمی ہوگئے، جبکہ پولیس کے پینتیس جوان موقع سے بھاگ گئے تھے، ان پر بھی سخت کارروائی ہوگی۔
مزید پڑھیں:
اب ان سبھی پہلوؤں پر جانچ ہو رہی ہے، پہلے یہ جانچ اے ڈی جی کانپور ژون کر رہے تھے لیکن اب یہ جانچ آئی جی لکھنؤ رینج محترمہ لکھچھمی سنگھ کریں گی، انہوں نے آج کانپور آکر ڈی ایس پی دیویندر سنگھ کے آفس کے کمپیوٹر اور ضروری دستاویز سیل کر کے محفوظ کر لیے ہیں جسکی جانچ وہ خود کرینگی۔