یوں تو اترپردیش میں جونپور شہر تاریخ کے اہم اوراق میں ایک خاص مقام رکھتا ہے یہاں پر شرقیوں اور مغلوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی اور اس شہر کو دارالخلافہ بھی کہا جاتا تھا اس شہر کو شیراز ہند کا لقب بھی دیا گیا اس شہر میں بے شمار علماء ومشائخ بھی پیدا ہوئے اور بیشتر نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا شرقی دور میں بے شمار عمارتوں کی تعمیر وجود میں آئی ان میں سے کچھ تو آج بھی اپنی قدیمی تہذیب کے ساتھ موجود ہیں اور بیشتر اپنی حالتِ زار پر آنسو بہا رہی ہیں۔
انہیں میں سے ایک عمارت 'مسجد راجے بی بی' ہے جس کا قدیمی نام 'نماز گاہ' تھا۔ اس مسجد کی تعمیر ابراھیم شاہ شرقی کے بیٹے محمود شاہ شرقی کی بیوی راجے بی بی نے سنہ 860ھ میں اپنے پیر و مرشد سید علی داؤد کے لئے کروائی تھی سید علی داؤد عربی النسل تھے جو اس وقت بادشاہ کی خاص درخواست پر ملک عرب سے جونپور تشریف لائے تھے۔ سلطان و ملکہ سید علی داؤد سے بہت عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ سید علی داؤد کی مزار مبارک موضع سید علی پور میں واقع ہے، جو اب عوام میں سدلی پور کے نام سے معروف ہے۔
مسجد کے جنوبی سمت میں سید علی داؤد کی خانقاہ تھی تو مسجد کے شمال میں مدرسہ تھا اور اسی سے متصل ایک لعل محل بنا ہوا تھا، جس میں سرخ پتھر لگائے گئے تھے اس کے سبب دور جدید میں یہ جگہ لال دروازہ کے نام سے معروف ہو گئی۔ گذرتے دور کے ساتھ خانقاہ اور محل کا نام و نشان اب باقی نہیں رہا۔ یہ مسجد شہر سے تقریباً تین،چار کلومیٹر کے فاصلے پر محلہ بیگم گنج میں ملہنی روڈ پر واقع ہے۔