اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

ناقابلِ فراموش شاعر و نغمہ نگار حسرت جے پوری پر خاص رپورٹ

بالی ووڈ کے نغمہ نگاروں کی فہرست ہمیشہ اس وقت تک خالی سمجھی جائے گی، جب تک اس فہرست میں حسرت جئے پوری کا نام شامل نہ کیا جائے۔

حسرت جے پوری
حسرت جے پوری

By

Published : Sep 17, 2020, 11:18 AM IST

زندگی کی توانائیوں سے بھرپور نغمہ تخلیق کرنے والے حسرت جے پوری نے ایسے نغمے دیے، جو آج بھی زبان زد عام ہے۔

آج حسرت جے پوری کی 21 ویں برسی ہے، اس موقع پر پیش ہے خاص رپورٹ۔

حسرت جے پوری

فن کے میدان میں، وراثت بہت عام ہے ، لیکن بڑے فنکار ایسے ہی افراد بننے میں کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے ورثہ کو سجانے سنوارنے کی ٹھیک اسی طرح مشقت کرتے ہیں جیسے کوئی نیا شاگرد تعلیم حاصل کرنے میں کرتا ہے۔

یہی بات نغمہ نگار حسرت جے پوری کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔

اقبال حسین عرف حسرت جے پوری کو شاعری ورثے میں ملی۔ ان کے نانا فدا حسین فدا مشہور شاعر تھے۔

تاہم شعرو شاعری کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے حسرت کو جو جدوجہد کرنی پڑی وہ سب کے لئے ممکن نہیں تھا۔

ہندی فلموں میں جب بھی ٹائٹل گیتوں کا ذکر ہوتا ہے، نغمہ نگار حسرت جے پوری کا نام سر فہرست آجاتا ہے۔

حسرت جے پوری

ویسے تو حسرت جے پوری نے ہر طرح کے گیتوں کے شعبہ میں طبع آزمائی کی لیکن فلموں کے ٹائٹل گیت لکھنے میں انہیں کمال کی مہارت حاصل تھی۔

ہندی فلموں کے سنہری دور میں ٹائٹل گیت لکھنا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ فلمسازوں کو جب بھی ٹائٹل گیت کی ضرورت ہوتی تھی، سب سے پہلے حسرت جے پوری سے رابطہ کیا جاتا تھا۔

ان کے تحریر کردہ ٹائٹل گیتوں نے کئی فلموں کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

حسرت جے پوری کے قلم سے نکلے کچھ ٹائٹل گیت اس طرح ہیں:

دیوانہ مجھ کو لوگ کہیں (دیوانہ)، دل ایک مندر ہے (دل ایک مندر)، رات اور دن دیا جلے (رات اور دن)،تیرے گھر کے سامنے ایک گھر بناؤں گا (تیرے گھر کے سامنے) این ایوننگ ان پیرس (این ایوننگ ان پیرس)گمنام ہے کوئی (گمنام)، دو جاسوس کریں محسوس (دو جاسوس)۔

حسرت جے پوری کا اصل نام اقبال حسین تھا۔

ان کی پیدائش 15 اپریل 1922 کو ہوئی تھی ۔

جے پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے دادا فدا حسین سے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ 20 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کا رجحان شاعری کی طرف مائل ہوگیا اور وہ چھوٹی چھوٹی غزلیں لکھنے لگنے۔

سال 1940 میں فکر معاش میں حسرت جے پوری نے ممبئی کا رخ کیا اور زندگی گزارنے کے لئے وہاں کنڈکٹر کی نوکری کرنے لگے۔

اس کام کے لیے انہیں صرف گیارہ روپے ماہ تنخواہ ملتی تھی۔ اس دوران انہوں نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیا۔

اسی درمیان ایک پروگرام میں پرتھوی راج کپور ان کی غزل سے کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے بیٹے راج کپور کو حسرت سے ملنے کی صلاح دی۔

راج کپور ان دنوں اپنی فلم ’برسات‘ کے لئے کسی نغمہ نگار کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے حسرت جے پوری کو ملنے کی دعوت دی۔

راج کپور سے حسرت کی پہلی ملاقات ’رائل اوپیرا ہاؤس‘ میں ہوئی اور اپنی فلم برسات کے لئے ان سے گیت لکھنے کی فرمائش کی۔ یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ فلم برسات سے ہی موسیقار شنکر جے کشن نے بھی اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا۔

راج کپور کے کہنے پر شنکر جے کشن نے حسرت جے پوری کو ایک دھن سنائی اور اس پر ان سے گیت لکھنے کو کہا۔ دھن کے بول کچھ اس طرح تھے ’امبوا کا پیڑ ہے وہیں منڈیر ہے، آجا مورے بالما کاہے کی دیر ہے‘ ۔ شنکر جے کشن کی اس دھن کو سن کر حسرت جے پوری نے جیہ بے قرار ہے، چھائی بہار ہے، آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے، گیت لکھا۔

سال 1949 میں ریلیز ہوئی فلم برسات میں اپنے اس گیت کی کامیابی کے بعد حسرت جے پوری فلمی دنیا میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

برسات کی کامیابی کے بعد راج کپور حسرت جے پوری اور شنکر جے کشن کی جوڑی نےکئی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔

حسرت جے پوری کی جوڑی راج کپور کے ساتھ 1971 تک قائم رہی۔ سنگیت کار جے کشن کی موت کے بعد راج کپور نے حسرت جے پوری کی جگہ آنند بخشی کو اپنی فلموں کے لئے منتخب کیا۔

حالانکہ اپنی فلم پریم روگ کے لئے راج کپور نے ایک بار پھر سےحسرت جے پوری کو موقع دینا چاہا لیکن بات نہیں بنی ۔ اس کے بعد حسرت جے پوری نے راج کپور کی فلم رام تیر ی گنگا میلی میں سن صاحبہ سن گیت لکھا جو کافی مقبول ہوا۔

حسرت جے پوری کو دو مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ حسرت جے پوری کو ورلڈ یورنیورسٹی ٹیبل کے ڈائریکٹ ایوارڈ اور اردو کانفرنس میں جوش ملیح آبادی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلم میرے حضور میں ہندی اور برج بھاشا میں جھنک جھنک تیری باجے پائل کے لئے امبیڈکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

مزید پڑھیں:خصوصی رپورٹ: شکیل بدایونی، بے مثال شاعر، لازوال نغمہ نگار

حسرت جے پوری نے تین دہائیوں پر مشتمل اپنے فلمی کیئریر میں 300 سے زائد فلموں کے لئے تقریباً 2000 نغمے لکھے۔ اپنے نغموں سے سامعین کو محظوظ کرنے والے شاعر اور گیت کار 17 ستمبر 1999 کو اپنے مداحوں کے لئے ’’ تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے ، جب کبھی بھی سنو گے گیت میرے ، سنگ سنگ تم بھی گنگناؤ گے‘‘ جیسا نغمہ چھوڑ کر اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

-------------------------

حسرت جئے پوری کی ایک غزل یہاں پیش خدمت ہے:

جب پیار نہیں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے

خط کس لئے رکھے ہیں جلا کیوں نہیں دیتے

کس واسطے لکھا ہے ہتھیلی پہ مرا نام

میں حرف غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے

للٰلہ شب و روز کی الجھن سے نکالو

تم میرے نہیں ہو تو بتا کیوں نہیں دیتے

رہ رہ کے نہ تڑپاؤ اے بے درد مسیحا

ہاتھوں سے مجھے زہر پلا کیوں نہیں دیتے

جب اس کی وفاؤں پہ یقیں تم کو نہیں ہے

حسرتؔ کو نگاہوں سے گرا کیوں نہیں دیتے

ABOUT THE AUTHOR

...view details