جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم آر شاہ پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اس معاملے کی آئندہ سماعت کے لیے اگست کے پہلے ہفتے کی تاریخ طے کرتے ہوئے انڈین بینک ایسوسی ایشن سے پوچھا کہ کیا ماہانہ قسطوں کی ادائیگی سے مہلت کی مدت پر نئی ہدایات لائی جاسکتی ہیں۔
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے سماعت کے دوران کہا کہ 'بینکوں سے لیا گیا قرض چھوٹی رقم نہیں ہے اور نہ ہی یہ قلیل مدتی قرض ہیں۔ یہ 500 کروڑ سے لے کر 2000 کروڑ تک ہیں۔
اس پر جسٹس شاہ نے کہا کہ 'یہ معلومات یہاں کے لیے موزوں نہیں ہے، سالیسیٹر جنرل نے دلیل دی کہ بینک بھی اپنے صارفین کو کمپاؤنڈ سود ادا کرنے کے پابند ہیں۔
جسٹس کول نے کہا کہ 'کیا آپ قرض لینے والوں کی قسط روک کر ان پر احسان کر رہے ہیں؟ یہ ملک کی ستم ظریفی ہے کہ ہزاروں کروڑوں روپے غیر اعلانیہ کھاتوں میں چلے جاتے ہیں لیکن آپ ان لوگوں سے سود ضرور لیں گے جو وقت پر قسط ادا کرتے ہیں۔
تشار مہتا نے کہا کہ 'یہ معاملہ بینکوں اور صارفین کے بیچ کا ہے، جس پر جسٹس بھوشن نے برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت اس معاملے میں پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ مرکزی حکومت یہ کہہ کر نہیں بچ سکتی کہ یہ بینکوں اور صارفین کے بیچ کا معاملہ ہے اگر مرکز ی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے تو اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ صارفین کو بامقصد طریقے سے فائدہ پہنچے۔