اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

دفعہ 370 کی منسوخی کے اثرات مودی - جن پنگ کی ملاقات پر عیاں

باہمی تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے چین اور بھارت کی طرف سے کئی طرح کے اقدامات اٹھائے گئے لیکن آج تک اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

فائل فوٹو

By

Published : Sep 23, 2019, 6:07 PM IST

Updated : Oct 1, 2019, 5:38 PM IST

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک اور بار اپنی کوششوں سے چینی صدر زی جن پنگ کو ایک غیر رسمی میٹنگ میں شرکت کرنے کی دعوت دی۔

دونوں ممالک کے سربراہوں نے رواں برس دو بار ایک دوسرے سے شنگھائی کوآپریشن آرگنائیزیشن اور جی 20 سمٹ میں ایک دوسرے سے روبرو ہوئے۔ لیکن کسی بھی فریق نے اپنے باہمی رشتوں کو مضبوط بنانے میں سنجیدہ پہل نہیں کی۔

جہاں چین اور بھارت ایک بار پھر اکتوبر کے مہینے میں میٹنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں وہیں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بھارت کو اشارے مل رہے ہیں کہ چین کی معروف مواصلاتی کمپنی 'ہووائی' کو 5جی سروس کے لیے سلامتی خدشوں کا بہانہ بنا کر کسی طرح موخر کیا جائے۔

نیز آسیان ممالک کی شراکت داری سمیت بنگلہ دیش، چین، بھارت، میانمار (بی سی آئی ایم) اقتصادی کاریڈور کی پیش رفت میں کمی بھی کرے اور خطے میں چین کے برعکس جاپان کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے۔

مسئلہ کشمیر
بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے ماسکو میں اپنے ایک حالیہ بیان کہا کہ 'چین کے ساتھ کئی طرح کے تنازعات ہیں جن میں بالخصوص سرحدی تنازع بھی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا کہ بھارت مذاکرات کے لیے کوشاں ہے مگر کہیں نہ کہیں شش و پنج میں بھی ہے'۔

چین کے پاکستان کو مسئلہ کشمیر میں کھلم کھلا حمایت کرنے کے بعد دونوں ممالکوں میں باہمی تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور چین کے خارجہ امور کے ترجمان نے بھی دفعہ 370 کی منسوخی کو واضح الفاظ میں مذہمت کی نیز اپنے حلیف ملک پاکستان کی سرعام مسئلہ کشمیر پر کھل کر حمایت کی۔

ذرائع کے مطابق چین کے اسٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ یی کو جب بھارت میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوؤال سے ہند - چین سرحد پر تبادلہ خیال کرنا تھا انہوں نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد دورہ رد کرکے اپنے حلیف ملک پاکستان کا دورہ کیا اور اس مسئلے پر بھی ان کے ساتھ کھڑا رہنے کے لیے پاکستانی رہنماؤں کو تیقن دلایا۔

ماہرین اور تجزیہ کاروں کے بقول دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد دونوں ممالکوں میں تلخیاں بڑھی ہیں۔

ایل اے سی پر امن کی ضرورت

بھارت اس بات پر زور دے گا کہ ایل اے سی پر امن و امان قائم رہے کیوںکہ پاکستان کی جانب سے انٹرنیشنل بارڈر اور ایل اے سی پر کشیدگی اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد بھارت کو پہلے پاکستان سے اپنے تعلقات کو نہ صرف بحال کرنا ہے بلکہ اسے مزید درست بھی کرنا ہے۔ لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں شامل کرنے کے بعد چین اور بھارت کے مابین تناؤ مزید بڑھ گیا۔

اگست 2017 میں پنگوگ سوجیل کے پاس ہی بھارتی افواج نے دعوی کیا کہ انہوں نے چینی دراندازی کو ناکام بنایا اور وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی عام بھی ہوا تھا۔ دونوں افواج کے درمیان پچھلے ہفتے اس جگہ ایک تصادم بھی ہوا جس کو پھر دونوں اطراف کی آرمی کے ذریعے حل کیا گیا لیکن اس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ دونوں کے درمیاں تعلقات اچھے نہیں ہیں اور بھارت چاہے گا کہ ماضی کے خراب تعلقات کی وجہ سے جن پنگ کا دورہ متاثر نہ ہو۔ نیز 2014 میں چینی لبریشن آرمی کی طرف سے چومر میں سڑک بنانے کی مساعی کی خبریں بھی کافی عرصے تک سرخیوں میں رہیں جس کے بعد تناؤ مزید بڑھ گیا تھا۔ جس کی وجہ سے بھارت امریکہ اور جاپان سے قریبی تعلقات بنانے لگا۔

معروف تجزیہ کار کارل جانسن کے مطابق روس کی اگر بات کی جانے تو یہ کھلی حقیقت ہے کہ روس، چین کے بلٹ اور روڈ انیشیٹو سے اندر ہی اندر کافی متاثر ہوا ہے اور وہ روایتی طور پر اپنی سرمایہ کاری کو بڑھانا چاہتا ہے اس لیے وہ چاہتا ہے ایشیا میں تنازعات بدستور رہے اور وہ ان سے فائدہ اٹھائے۔

انڈو پیسفک میں چین کی شراکت داری کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ ماضی میں روس کو چین کے ساتھ کشیدگیاں تھیں اور موجودہ دور میں سرد جنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس سے اس بات کا انکشاف ہوگیا کہ بھارت چین کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوشاں ہے اور ایسا کرنا دونوں ہی ممالک کے لیے سودمند ہوگا۔

Last Updated : Oct 1, 2019, 5:38 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details