حکومت اور نئے زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کی کسان تنظیمیں آٹھویں دور کے مذاکرات سے ایک روز قبل جمعرات کو اپنے موقف پر قائم تھیں۔ آٹھویں دور کی بات چیت جمعہ کو دوپہر 2 بجے وگیان بھون میں ہوگی۔
یہ اجلاس چار جنوری کو ہونے والی میٹنگ کے غیر نتیجہ خیز ہونے کے بعد اہم مانا جا رہا ہے، 30 دسمبر کو چھٹے دور کی بات چیت میں حکومت نے بجلی کی سبسڈی اور پرالی جلانے سے متعلق دو مطالبات کو قبول کرلیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے کے مذاکرات غیر نتیجہ رہے تھے۔
احتجاج کرنے والے کسانوں نے تینوں نئے زرعی قوانین واپس لینے کے مطالبے کے لئے ٹریکٹر ریلیاں نکالیں، جبکہ مرکز نے اصرار کیا کہ وہ ان قوانین کو واپس لینے کے علاوہ ہر تجویز پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ فریقین تعطل کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دریں اثنا یہ افواہیں بھی سنائی دے رہی ہیں کہ کچھ ریاستوں کو مرکزی زرعی قوانین کے دائرے سے باہر نکلانے کی اجازت دی جارہی ہے، لیکن کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے ایسی کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔
مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے ایسی کسی تجویز کی تردید کی ہے۔ تومر، وزیر خوراک پیوش گوئل اور وزیر مملکت برائے تجارت سوم پرکاش 40 مظاہرین کسان تنظیم کے رہنماوں کے ساتھ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی نمائندگی کررہے ہیں۔
کسانوں کی حمایت میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی آگے آرہے ہیں، بچے بھی کسانوں کے ساتھ ساتھ نئے زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، ایسی ہی ایک لڑکی ریا سونپ یت میں جاری کسانوں کی تحریک میں پہنچی۔ ریا تیسری جماعت میں پڑھتی ہے اور وہ پانی پت کی رہائشی ہے۔ تیسری جماعت میں زیر تعلیم ریا نے اپنی تقریر سے سب کو حیران کردیا۔